سپریم کورٹ نے اردو کو سرکاری اور پنجابی کو صوبائی زبان رائج نہ کرنے پر حکومت سے جواب طلب کر لیا

سپریم کورٹ نے اردو کو سرکاری اور پنجابی کو صوبائی زبان رائج نہ کرنے پر حکومت سے جواب طلب کر لیا
سپریم کورٹ میں اردو کو سرکاری زبان کے طور پر رائج نہ کرنے پر توہین عدالت کیس میں عدالت عظمیٰ نے وزارت تعلیم سے جواب طلب کرلیا، ساتھ ہی عدالت عظمیٰ نے پنجاب میں پنجابی لٹریچر نہ پڑھائے جانے پر پنجاب حکومت سے بھی جواب طلب کر لیا۔

جسٹس عمر عطا بندیال کی سربراہی میں سپریم کورٹ کے تین رکنی بینچ نے بدھ کو مذکورہ کیس کی سماعت کی۔

سماعت کے دوران جسٹس عمر عطا بندیال نے ریمارکس دیے کہ ’اردو کو سرکاری زبان کے طور پر رائج کرنے کے سپریم کورٹ کے حکم پر عمل ہونا چاہیے۔ تعلیمی اداروں میں اردو زبان کو کوئی فروغ نہیں مل رہا۔ اس معاملے کو اب سنجیدگی سے دیکھیں گے۔‘

انہوں نے محتصر سماعت میں مزید ریمارکس دیے کہ ’شہریوں کی بھی ذمہ داری ہے کہ اپنی زبان کو زندہ رکھیں۔ اردو کو عالمی زبان بنانا چاہیے۔

جسٹس عطا بندیال نے کہا: ’وفاقی حکومت نشاندہی کرے کہ اردو زبان رائج کرنے کے کون سے ادارے ہیں۔ باقی صوبے اپنی زبانوں کا تحفظ کر رہے ہیں تو پنجاب کیوں پیچھے ہے؟‘

ساتھ ہی عدالت عظمیٰ نے پنجاب میں پنجابی لٹریچر نہ پڑھائے جانے پر پنجاب حکومت سے بھی جواب طلب کرتے ہوئے سماعت غیر معینہ مدت کے لیے ملتوی کر دی۔

واضح رہے کہ ستمبر 2015 میں سابق چیف جسٹس جواد ایس خواجہ نے اردو کو سرکاری زبان کے طور پرنافذ کرنے کا حکم دیا تھا اور تحریری فیصلہ بھی اردو میں جاری کیا تھا۔

سائلین بھی متعدد بار یہ شکایت کرچکے ہیں کہ کیس کی کارروائی انگریزی میں ہونے کی وجہ سے انہیں سمجھ ہی نہیں آتی، جو بعد میں انہیں وکیل سے پوچھنی پڑتی ہے۔

گذشتہ برس اردو زبان رائج نہ کرنے پر وکیل کوکب اقبال نے وزیراعلیٰ پنجاب عثمان بزدار اور وزیراعظم کے پرنسپل سیکرٹری اعظم خان کے خلاف توہین عدالت کی درخواست دائر کی تھی۔ گذشتہ برس ستمبر میں بھی اس کیس کی ایک سماعت ہوئی تھی جس میں حکومت سے جواب طلب کیا گیا تھا۔

آئین کا آرٹیکل 251 اس معاملے پر واضح ہے، جس کی شق نمبر ایک کے مطابق پاکستان کی قومی زبان اردو ہے اور سرکاری سطح پر اس کے فروغ کے انتظامات ہونے چاہییں۔ شق نمبر دو کے مطابق دفتری زبان انگریزی رہے گی، جب تک اردو کو اُس کا مکمل متبادل نہیں بنا دیا جاتا۔

اسی طرح شق نمبر تین کے مطابق صوبائی اسمبلی قومی زبان کے ساتھ ساتھ صوبائی زبانوں کی ترویج کے لیے بھی اقدامات کرے۔

اسی بنیاد پر جسٹس جواد ایس خواجہ نے اپنے تفصیلی فیصلے میں لکھا تھا کہ 'آرٹیکل 251 کے احکامات کو بلا تاخیر فوراَ نافذ کیا جائے۔'

بارہ صفحات پر مشتمل اس فیصلے میں مزید لکھا گیا تھا کہ قومی زبان کے رسم الخط میں یکسانیت پیدا کرنے کے لیے وفاقی اورصوبائی حکومتیں باہمی ہم آہنگی پیدا کریں جبکہ تین ماہ کے اندر اندر وفاقی اور صوبائی قوانین کا ترجمہ کر لیا جائے۔ عدالت نے یہ بھی کہا تھا کہ بغیر کسی غیر ضروری تاخیر کے نگرانی کرنے والے اور باہمی ربط قائم رکھنے والے ادارے آرٹیکل 251 کو نافذ کریں اور تمام متعلقہ اداروں میں اس دفعہ کا نفاذ یقینی بنائیں جبکہ وفاقی سطح پر مقابلے کے امتحانات میں قومی زبان کے استعمال کے بارے میں حکومتی ادارے مندرجہ بالا سفارشات پر عمل کریں۔

عدالتی فیصلے میں یہ بھی کہا گیا تھا کہ ’ان عدالتی فیصلوں کا، جو عوامی مفاد سے تعلق رکھتے ہوں، جو آرٹیکل189 کے تحت اصولِ قانون کی وضاحت کرتے ہوں، لازماَ اردو میں ترجمہ کروایا جائے اور عدالتی مقدمات میں سرکاری محکمے اپنے جوابات حتیٰ الامکان اردو میں پیش کریں تاکہ شہری اس قابل ہو سکیں کہ اپنے قانونی حقوق نافذ کروا سکیں۔‘

مزید کہا گیا تھا: ’اس فیصلے کے اجرا کے بعد اگر کوئی سرکاری ادارہ یا اہلکار آرٹیکل 251 کے احکامات کی خلاف ورزی جاری رکھے گا تو جس شہری کو بھی اس کی خلاف ورزی کے نتیجے میں نقصان یا ضرر پہنچے گا، اسے قانونی چارہ جوئی کا حق حاصل ہوگا۔‘