ایسا نہیں کہ اس ملک میں متبادل میڈیا پر پیش کیا جانے والا مواد آپ کی جان کو خطرے میں نہیں ڈالتا لیکن کچھ نہ کچھ مالی فائدے کی وجہ سے معاشی قتل سے تحفظ ضرور دیتا ہے۔ لہٰذا سردست تو عوام سے میری اپیل ہے کہ اس طرح کے متبادل آزاد میڈیا اور ان کے چلانے والوں کی حوصلہ افزائی ہمارا فرض بنتا ہے۔ غیر جمہوری طاقتوں کے کنٹرول میں چلنے والے سیٹھ میڈیا سے اس ملک کی سیاست اور اقتدار آزاد کرانے میں ہمارا کردار بس اتنا ہے کہ اس قسم کے سنجیدہ اور آزاد متبادل ویب ٹی وی چینلز اور یوٹیوب چینلز کو سبسکرائب کرکے سنیں۔
اگر گزشتہ 75 برسوں کا جائزہ لیا جائے تو سیاسی انجینئرنگ میں سب سے اہم کردار اسی رسمی سیٹھ میڈیا نے ادا کیا ہے۔ غیر جمہوری قوتوں نے ابلاغ کے ذرائع ان افراد اور خاندانوں کے ہاتھوں میں تھما دیے جن کا مطمع نظر ایک آزاد، جمہوری، خوشحال اور ایماندار معاشرے کی تشکیل کے بجائے طاقت اور دولت کا حصول تھا۔ اس ناپاک گٹھ جوڑ کے نتیجے میں پورے معاشرے میں غیر سیاسی پن عام ہوا۔ ریاستی اختیارات، وسائل اور دولت کی غیر منصفانہ تقسیم نے محرومی، ہر قسم کی شدت پسندی اور بدعنوانی کو فروغ دیا۔
روایتی میڈیا کا کام تھا کہ وہ ظلم، جبر، استحصال، بدعنوانی اور رشوت ستانی کے خلاف عوام کی آواز بنے لیکن شومئی قسمت کہ یہ خود اسی رنگ میں رنگتا چلا گیا۔ سوچنے کی بات یہ ہے کہ اگر آپ کسی غریب بے روزگار نوجوان کو رپورٹر بنائیں، وہ بھی سفارش پر، بغیر تنخواہ کے اس کے ہاتھ میں قلم یا مائیک پکڑا کر اس سے بولیں کہ جاؤ کچھ پیدا کرو، آدھا تیرا اور آدھا میرا۔ بھلا اس حال میں وہ کس قسم کی صحافت کرے گا۔ ظاہر ہے وہ کسی حکمران، سیٹھ یا سیاسی اور کاروباری شخصیت یا کسی سرکاری افسر کی چوکھٹ پر حاضری لگا کر ان کی شان میں خود قصیدے لکھے گا یا جو اس کو لکھا ہوا ملے گا وہی شائع کر دے گا یا پھر بلیک میلنگ پر اتر آئے گا۔
اس معاملے میں علاقائی اور مقامی یعنی اضلاع کی سطح پر اخبارات قابل اعتراض سرگرمیوں میں زیادہ ملوث بتائے جاتے ہیں۔ مثلاً ایک بندہ دوسرے علاقے سے آ کر سوات سے اخبار نکالنا شروع کرتا ہے اور چند سالوں میں گروپ بنا کر اس کو دوسرے اضلاع تک پھیلا کر خود اسلام آباد میں کوٹھی لے کر ایک پورشن میں خود رہنا شروع کرتا ہے اور دوسرے میں دفتر بنا کر خود چیف ایڈیٹر اور بیٹے کو نیوز ایڈیٹر لگا کر اخبار چلا رہا ہوتا ہے۔ یہ سب کچھ اصولی صحافت اور دو تین ہزار سرکولیشن سے تو ممکن نہیں ہے۔ ظاہر ہے اخبار سرکاری گزٹ بنے گا، بے تنخواہ رپورٹر خبر لگانے کی قیمت پانچ سو روپے سے لے کر ایک ہزار تک وصول کرنے پر مجبور ہوگا اور خبر سرخی کسی کے نام کی ہوگی اور تفصیل کسی اور کے نام کی شامل ہو گی کیونکہ ایڈیٹر نے تو شائع ہونے سے پہلے کاپی پڑھنی ہوتی ہے اور نہ ہی بعد میں۔
اس قسم کے اخبارات کی تعداد اتنی ہے کہ شاید اب پریس اینڈ انفارمیشن ڈیپارٹمنٹ کو بھی نہیں معلوم ہو گا۔ اس طرح کے اخبارات میں جمہوری سیاسی لوگوں کی خبر شائع ہونا تو پاپولیرٹی کے بجائے بدنامی کا باعث بنے کا اندیشہ زیادہ ہے۔ ویسے تو دیوار پر لکھا ہوا نظر آ رہا ہے کہ آزاد متبادل میڈیا کے آنے کے بعد اس قسم کے میڈیا کا وقت بہت کم رہ گیا ہے لیکن پھر بھی جمہوری سیاسی قوتوں، دانشوروں اور لکھاریوں کا فرض بنتا ہے کہ مین سٹریم میڈیا کے اس رجحان کی حوصلہ شکنی کرکے آزاد سنجیدہ متبادل میڈیا کی حوصلہ افزائی کرکے اس کو فروغ دیں۔ ساتھ ساتھ اپنے سوشل میڈیا پر توجہ دے کر کنٹرولڈ رسمی میڈیا کے متبادل کو فروغ دیں۔