عالمی خبر رساں ادارے کے مطابق ریاستی وزیر دفاع پریمیتھا بندارا تھینکون نے ایک بیان میں کہا ہے کہ سری لنکا اگلے سال تک بتدریج فوجیوں کی تعداد میں ایک تہائی تک کمی کردے گا جب کہ 2030 تک یہ تعداد ایک لاکھ تک کردی جائے گی کیونکہ ملک سات دہائیوں سے زیادہ عرصے میں اپنے بدترین معاشی بحران کا سامنا کرتے ہوئے اخراجات کو کم کرنے کی کوشش کر رہا ہے.
سری لنکا کی مسلح افواج کا حجم 2017 اور 2019 کے درمیان 3 لاکھ 17 ہزار تھی جو ورلڈ بینک کے مطابق 2009 میں ختم ہونے والے لبریشن ٹائیگرز آف تامل ایلم کے ساتھ 25 سالہ طویل تنازع کے دوران اس سے بھی کہیں زیادہ تھی۔
دارالحکومت کولمبو میں مقیم تھنک ٹینک ویریٹ ریسرچ کے مطابق سری لنکا کے کل اخراجات میں دفاعی شعبے کا حصہ 2021 میں جی ڈی پی کے 2.31 فیصد پر پہنچ گیا تھا گو 2022 میں اس میں کچھ کمی آئی تھی۔
وزیر دفاع پریمیتھا بندارا تھینکون کا کہنا ہے کہ ملک کو اس وقت سات دہائیوں کے دوران پہلے بدترین معاشی بحران کا سامنا ہے جس سے نبرد آزما ہونے کے لیے اخراجات کو کم کرنے کی کوشش کر رہے ہیں۔
وزیر دفاع کا مزید کہنا تھا کہ فوجیوں کی تعداد اور اخراجات میں کمی اس اقدام کا مقصد 2030 تک ایک تکنیکی اور حکمت عملی کے لحاظ سے صحیح اور متوازن دفاعی قوت بنانا ہے۔
واضح رہے کہ سری لنکا کے نئے صدر نے حکومتی اخراجات میں 5 فیصد تک کمی کرنے کا اعلان کیا تھا۔
سری لنکن صدر رانیل وکرما سنگھے نے کہا ہے کہ ملکی خزانہ تیزی سے خالی ہو رہا ہے جبکہ ٹیکسوں میں زبردست اضافے کے باوجود تنخواہوں اور پنشن کی ادائیگی مشکل ہو گئی ہے۔
سری لنکن صدر نے حکومتی اخراجات میں کٹوتیوں کا بھی اعلان کر دیا اور کہا کہ بین الاقوامی مالیاتی فنڈ سے بیل آؤٹ پیکج کے لیے بات چیت کر رہے ہیں تاہم اس میں مزید وقت لگ سکتا ہے۔
رانیل وکرما سنگھے نے کہا کہ خط غربت سے نیچے 18 لاکھ خاندانوں کو دی جانی والی مالی امداد بھی تاخیر کا شکار ہوسکتی ہے اور معاشی بحران ہماری توقعات سے بھی بدتر ہونے والا ہے۔
واضح رہے کہ ڈالرز کی شدید کمی کے باعث سری لنکا قرضہ ادا نہ کرنے کے باعث دیوالیہ ہو گیا تھا اور ملک میں دواؤں سمیت پیٹرول خریدنے کے لیے بھی ڈالرز نہیں تھے جس پر ملک بھر میں ہنگامے پھوٹ پڑے اور اُس وقت کے وزیر اعظم کو ملک سے فرار ہونا پڑا تھا۔