جمہوری نظام کو آرٹیفیشل انٹیلی جنس کی مدد سے چلایا جائے

قراردادوں کے ذریعے اگر عدلیہ اور دوسرے اداروں سے اپنے اختیارات کی بھیک ہی مانگنی ہے تو اس کی روبوٹک پارلیمان نوبت ہی نہیں آنے دے گی۔ جب اس کو آئین و قانون اور اگلے پانچ سالوں کے منصوبوں بارے ڈیٹا دے دیا جائے گا تو غلطی کا سوال ہی پیدا نہیں ہوتا۔

06:56 PM, 13 Jan, 2024

ڈاکٹر ابرار ماجد

انتخابات کے انعقاد اور ملتوی کروانے کے دونوں بیانیے زور و شور سے جاری ہیں اور انعقاد بھی غیر شفافیت اور جانبداری کے خدشات کے ہاتھوں یرغمال ہو چکا ہے۔ کوئی موسمی سردی اور امن عامہ کو بنیاد بنا کر ملتوی کروانا چاہتا ہے تو کوئی اس کے انعقاد سے متعلق انتظامی بد عنوانیوں کے خدشات کے پیش نظر اس سے راہ فرار تلاش کرنے کی کوشش میں ہے۔

ہمارے سیاسی حلقوں نے اپنے اعمال سے ایسا تاثر پیدا کر دیا ہے کہ گویا جمہوری نظام اس ملک میں ناکام ہو چکا ہے۔ جب بھی جمہوریت سکھ کا سانس لیتی ہے تو کوئی نہ کوئی جمہوری غدار اس پر شب خون مروا کر اسے کبھی ہائبرڈ مین کے ہاتھوں یرغمال بنوا دیتا ہے تو کبھی یہ مفاہمتی ہتھکنڈوں کے سامنے گھٹنے ٹیکنے پر مجبور ہو جاتی ہے۔ پھر ہمارے سیاسی پنڈت اپنے فرمودات جاری کرنے لگتے ہیں کہ جمہوریت کو چلنے نہیں دیا جاتا جو انتہائی قابل افسوس اور باعث شرم مؤقف ہے۔ جب کسی کے مد مقابل کھڑے ہوں تو یہ جواز نہیں پیش کیا جاسکتا کہ مجھے جیتنے نہیں دیا جا رہا بلکہ اپنی طاقت، جرات اور حکمت عملی سے دنگل جیتے جاتے ہیں۔ ماحول تو ہلا شیری یا ہار جیت کا اعلان ہی کر سکتا ہے۔ اپنی نالائقیوں کو چھپانے کے لئے کبھی نظام کو مورد الزام ٹھہرانا شروع کر دیتے ہیں تو کبھی اپنی بے بسیوں پر ہمدردیوں کی بھیک مانگنا شروع کر دیتے ہیں۔ اس کا مطلب تو ہوا کہ نہ نو من تیل ہو گا اور نہ رادھا ناچے گی۔ نہ ان کو کوئی کام کرنے دے گا اور نہ یہ پارلیمانی نظام کامیاب ہو گا۔

جب آئین و قانون ان کو نظام کے اندر بالادستی دیتا ہے تو پھر اپنے ان حقوق اور منصب کو انہوں نے اپنی جرات اور حکمت سے ہی منوانا اور حاصل کرنا ہے جس کے لئے جذبے، دلیری اور قربانیوں اور سب سے بڑھ کر ذمہ داریوں کو سنجیدگی سے لینے کی ضرورت ہوتی ہے۔ اگر سیاست کو کاروبار یا اختیارات کے حصول کو اپنی اجارہ داری کا مقصد بنا لیا جائے تو پھر ایسی سیاست کبھی بالادستی کی ضامن نہیں بن سکتی۔ وہ بھی ریاست کے وسائل اور اختیارات کے بل بوتے پر ذاتی مفادات کی خاطر سب کچھ کرتے ہیں اور تم بھی اگر آزادی ملے تو ان سے کم نہیں۔

اگر ماضی کے انتخابات کو بھی دیکھا جائے تو اس کے نتائج کو اکثر متنازعہ بنا کر پارلیمان کو عوامی امنگوں کے مطابق قومی مسائل کو حل کرنے میں کامیاب ہونے میں رکاوٹیں کھڑی کی جاتی رہی ہیں جس نے سیاسی عمل میں بد اعتمادی پیدا کر کے جمہوریت کو نقصان پہنچایا ہے۔ سیاست دانوں کی ان کمزوریوں کے تحت پارلیمان کے اجلاس بھی انٹیلی جنس کی مدد سے چلائے جاتے رہے ہیں اور جب کہیں ان کی خواہشات کے برعکس پارلیمان نے چلنے کی کوشش کی تو آمریت کے ہاتھوں نظام ہی یرغمال بنا لیا گیا۔

پارلیمان کے ایوان بالا میں تیسری مرتبہ الیکشن کے التوا کے لئے قرارداد جمع کروائی گئی ہے اسے اگر جمہوری کہنے سے انکار نہیں کیا جا سکتا تو پھر اس میں دانشمندی یا سیاسی شعور کی موجودگی کا اعتراف بھی نا ممکن ہے۔ اس پر جو تبصرے ہو رہے ہیں وہ بھی روبوٹک جمہوریت سے کم تو نہیں۔ جب اجلاسوں کے احکامات اور ایجنڈے کہیں اور سے آنے ہیں تو پھر یہ کام تو روبوٹک پارلیمان بہتر طریقے سے ادا کر لے گی۔

اسے اگر آرٹیفیشل انٹیلی جنس ٹیکنالوجی سے مزین کر کے آئین و قانون اور اگلے پانچ یا دس سالوں کے ترقیاتی منصوبے دے دیے جائیں گے تو ان نام نہاد روبوٹس سے تو وہ حقیقی روبوٹک پارلیمان بہترین وژن دینے کے قابل ہو گی۔

ایسے حالات میں جب قوم ان کے انعقاد پر تذبذب کا شکار ہے تو کیوں نہ انتخابات کو سیاست دانوں کے درمیان کسی جمہوری معاہدے تک ملتوی کر کے روبوٹک پارلیمان بنا دی جائے اور غیر جانبدار اور غیر متنازعہ اچھی شہرت اور کردار کی حامل شخصیات پر مبنی ایک کونسل بنا دی جائے جو عوامی رائے اور امنگوں کی پاسداری کے لئے ان سے براہ راست حاصل کردہ تجاویز کی روشنی میں روبوٹک پارلیمان کو سفارشات پیش کرتی رہے۔ اس سے قوم کے 25 ارب کے لگ بھگ اخراجات بھی بچیں گے اور نظام بھی محفوظ رہے گا۔ نہ رہے گا بانس اور نہ بجے گی بانسری۔ نہ روز انتخابات ہوں اور نہ روز روز پارلیمان آمریت کے ہاتھوں یرغمال ہو کر سیاست اور جمہوریت کے لئے رسوائی کا موجب بنے۔ ان کی بانسری نے پوری دنیا میں پاکستان کو رسوا کر دیا ہے۔

ویسے بھی اگر دیکھیں تو ماضی کی پارلیمان میں اکثریتی لوگ ایسے ہوتے ہیں جو محض پارلیمان کا حصہ ہوتے ہیں، ان کی قانون سازی میں کارکردگی برائے نام ہوتی ہے۔ قوانیں پر عمل درآمد کا کوئی حل نہیں ڈھونڈ پاتیں اور پھر جو قوانین بناتی بھی ہیں ان میں تضادات اور ان سے ابھرنے والے سیاسی مسائل ہی اتنے ہوتے ہیں کہ سپریم کورٹ عوامی مقدمات پر توجہ دینے کی بجائے قوانین کی تشریحات پر لگی رہتی ہے۔ اب انتخابات کو وہ زبردستی کروانے کی ٹھان کر بیٹھے ہیں تو 8 فروری تک پاکستان کی ساری عدالتیں انتخابات کے بارے مقدمہ بازی کو ہی نمٹائیں گی اور اس سے کوئی خوش بھی نہیں ہے۔ باقی آمدن اور اخراجات کے ہندسوں کی جمع تفریق ہی ہے جس کو روبوٹک پارلیمان بغیر کسی غلطی کے خدشے کے احسن طریقے سے سرانجام دے لے گی۔

قراردادوں کے ذریعے اگر عدلیہ اور دوسرے اداروں سے اپنے اختیارات کی بھیک ہی مانگنی ہے تو اس کی روبوٹک پارلیمان نوبت ہی نہیں آنے دے گی۔ جب اس کو آئین و قانون اور اگلے پانچ سالوں کے منصوبوں بارے ڈیٹا دے دیا جائے گا تو غلطی کا سوال ہی پیدا نہیں ہوتا بلکہ وہ حکومتی مشینری کو پورا شیڈول دے دے گا اور اگر کوئی اس شیڈول کے مطابق نہیں چلتا تو اس پر جرمانہ بھی عائد کر دے گا۔ اس پر عمل درآمد ویسے بھی حکومتی مشینری کے موڈ پر منحصر ہوتا ہے۔

ہاں اگر سیاست دانوں کو عہدوں کی ہوس ہے تو اس کا علاج یہ ہے کہ وزیر اعظم کے لئے سادہ اکثریت سے 172 ارب دو تہائی کے لئے 228 ارب کی قیمت رکھ دی جائے اور قومی وزارتوں کی قیمت سات سات ارب اور صوبائی کی پانچ پانچ ارب رکھ دی جائے۔ ایسے ہی صوبائی اسمبلیوں کی بھی اعداد کے مطابق قیمت متعین کی جا سکتی ہے۔ جو بھی علامتی طور پر وزیر اعظم، وزیر اعلیٰ یا وزیر بننا چاہے وہ رقم خزانے میں جمع کروا کے روبوٹک پارلیمان کو ثبوت جمع کروا دے اور اگر کوئی دوران عرصہ اسمبلی عدم اعتماد کے ذریعے سے عہدہ حاصل کرنا چاہے تو پہلے والے کی ادا کی گئی رقم کو لوٹا کر اس کے برابر خزانے میں جمع کروا کر عہدہ حاصل کر سکتا ہے۔

جب ایک ایک ممبر مبینہ طور پر لگ بھگ ایک ایک ارب تک اپنے حلقوں میں خرچ کر سکتا ہے تو پھر وہ اس عہدے کے لئے خزانے میں رقم کیوں نہیں جمع کروا سکتا۔ اسی طرح پارلیمان کے ایوان بالا کے لئے تو پہلے بھی یہی فارمولے چلتے ہیں جو مختلف لوگوں کی جیبوں میں چلے جاتے ہیں۔ اس روبوٹک نظام کے ذریعے وہ خزانے میں آئیں گے۔ صوبوں کے حساب سے جتنی سیٹیں ہیں ان کی بولی کروا لی جائے اور زیادہ آفر دینے والوں کو ممبران چن لیا جائے۔

انتخابات سے لے کر وزیر اعظم اور سینیٹ کے انتخاب اور بعد کے سارے معاملات جب پہلے سے ہی مالی بے ضابطگیوں کے ہاتھوں یرغمال بنے ہوئے ہیں تو کیوں نہ ان کو مالی ضابطوں کے ماتحت لا کر عوامی فلاح کا ذریعہ بنا دیا جائے۔ جو ماضی میں عوام کے نام پر مالی اداروں سے قرضے لے کر عیاشی کرتے رہے ہیں وہ اگر شوق سیاست و حکومت اور اختیارات و اجارہ داری رکھتے ہیں تو پھر اپنی جیب سے ملکی قرضوں کو ادا کریں اور عہدوں کے مزے لیں۔

حد ہو گئی ہے، ہماری ان ذاتی مفادات اور خواہشات کے گرد گھومتی سوچوں نے پارلیمان، سیاست، جمہوریت اور حتیٰ کہ ملک و قوم کو مذاق بنا کر رکھ دیا ہے۔ ہماری اخلاقیات کا یہ حال ہے کہ اس سے انسانیت بھی شرمندہ دکھائی دیتی ہے۔ ہم مسائل کو حل کرنے کے بجائے مسائل کا سبب بنے ہوئے ہیں اور مرغوں کی طرح ایک دوسرے کو لہولہان کرنے کے درپے ہیں۔ ہمارے اندر مہذب معاشروں والی کوئی خصلت ڈھونڈنے سے بھی نہیں ملتی تو اس سے بہتر نہیں کہ نظام کو خود کار کر دیا جائے۔ وہ دنیا کے بہتریں نظاموں اور بہتری کے اصولوں کو اٹھا کر لاگو کرتا رہے گا۔

اسی طرح اداروں میں بھی جہاں جہاں بے ضابطگیاں ہیں وہاں بھی روبوٹک نگران مقرر کر دیے جائیں جو آئین و قانون کے مطابق حکم صادر کرتے رہیں۔ کم از کم انسانیت کی تذلیل تو نہ ہو۔ دور جدید کی انسان کی بنائی ہوئی مشینری انسان سے زیادہ فعال، وفادار اور ایماندار ہو گئی ہے تو کیوں نہ اس سے فائدہ اٹھایا جائے اور انسانوں کو سیاسی شعور، اعلیٰ اخلاقیات، وفاداری اور ایمانداری کے حصول تک اپنی اصلاح کے لئے فارغ چھوڑ دیا جائے۔ پاکستان کو پہلی روبوٹک پارلیمنٹ ہونے کا عالمی اعزاز بھی مل جائے گا۔

آئین میں تو اس کی کوئی گنجائش نہیں لیکن انتخابات کو ملتوی کروانے کا آئین میں کہاں لکھا ہوا ہے جو ہر آئے دن کوئی نہ کوئی نئی منطق کے ساتھ وارد ہو جاتا ہے۔ کوئی سیاسی جماعت اپنے اندر جمہوریت لانے کے لئے تیار نہیں اور جو انٹرا پارٹی انتخابات کرواتی بھی ہیں تو اپنے بنائے ہوئے پارٹی آئین کا بھی خیال نہیں رکھ پاتیں اور آئینی اداروں کے اختیارات اور ان کی خود مختار حیثیت کو ماننے کے لئے بھی تیار نہیں دکھائی دیتیں۔ ہر معاملہ خاص بندوبست سے چلانے کے عادی ہو چکے ہیں جس سے ظاہر ہوتا ہے کہ بعض سیاسی جماعتیں انتخابات عوامی خدمت کے لئے نہیں بلکہ اقتدار کے حصول کے لئے کروانا چاہتی ہیں۔ نہ کوئی سیاسی اصولوں کی پاسداری ہے اور نہ کوئی جمہوری اقدار کی۔

مزیدخبریں