فیض احمد فیض کی نظم 'ہم دیکھیں گے' اس صورتحال میں صادق آتی ہے۔
کراچی کے باسیوں کےلئے یہ سوچنا تودرکنار کہ انہیں کبھی ایم کیوایم کے شکنجے سے چھٹکارا ملے گا یہ بھی سوچنا محال تھا کہ وہ کبھی اسی جماعت کے سامنے اپنے حقوق کے لئے کھڑے ہوں۔ لیکن اب شہریوں کے منہ میں زبان آگئی ہے۔ وہ ہمت رکھتے ہیں اپنے لیڈروں سے ان کی کارکردگی جاننے کی۔
ایم کیوایم کے خالد مقبول صدیقی جب ضلع وسطی میں پارٹی آفس کا افتتاح کرنے پہنچے توعوام نے پلے کارڈ اٹھا کر انہیں آئینہ دکھا دیا۔
یہی نہیں بلکہ ایم کیوایم کے قائد الطاف حسین کے بعد کچھ وقفے کے لئے ایم کیوایم کی چئیرمین شپ کا تاج پہننے والے فاروق ستار بھی جب بولٹن مارکیٹ کی میمن مسجد پہنچے تو انہیں لگا کہ وہ یہاں اپنا میمن کارڈ آرام سے کھیل پائیں گے لیکن شہریوں نے ان کا استقبال بددعاؤں سے کیا۔
عوام کے عتاب کا شکار بننے والی صرف ایم کیوایم ہی نہیں بلکہ یہاں تو پیپلز پارٹی بھی نہیں بچی۔ لیاری کے علاقے کا احتجاج پہلے ہی پیپلزپارٹی کے لیڈروں کا ہوش اڑانے کے لئے کم تھا کہ سابق اپوزیشن لیڈرخورشید شاہ جو اپنے حلقےمیں بڑے بڑوں کو اپنے سامنے جھکنے پر مجبور کر دیا کرتے تھے کوان کے جیالوں نے گھیرلیا؟ ایسی صورتحال میں انہوں نے وہاں سے نکلنے میں ہی عافیت جانی۔
نوجوانوں کی آواز گردانی جانے والی جماعت پاکستان تحریک انصاف بھی عوام کے سوالوں سے نہیں بچی۔ خرم شیر زمان جب اپنے حلقے میں انتخابی مہم چلانے پہنچے تو عوام نے ان سے ان کے کام کا حساب مانگ لیا۔
تحریک انصاف کے قائد عمران خان جب کراچی میں انتخابی مہم کے لئے پہنچے تو دہلی کالونی پرسڑک کی بندش پرعوام نے سڑکوں پر ہی عمران خان کے خلاف نعرے لگا دیے۔
حلقہ 250 سے 2013 کے انتخابات میں ایم کیوایم کی امیدوار خوش بخت شجاعت کو مات دینے والے عارف علوی بھی عوام کے سوالوں سے بچ نہیں سکے۔حلقے میں ووٹ مانگنے کیا گئے عوام کارکردگی کا حساب مانگ لیا۔
https://www.youtube.com/watch?v=3A6ImsTwC6A
ایون فیلڈ اپارٹمنٹ کا فیصلہ کیا آیا، لندن میں مقیم نواز شریف اور ان کے خاندان کو پاکستانیوں نے بتادیا کہ اب عوام کا پیسہ کھا کر کوئی بھی سیاست دان بچ نہیں پائے گا۔
وہ کہتے ہیں نا زبان خلق کو نقارہ خدا سمجھو، تو لگتا کچھ یوں ہے کہ انتخابات سے پہلے ہی عوام نے بتا دیا ہے کہ اب کام نہ کرنے والے کی چلنے نہیں دیں گے۔