یہ پروگرام 10 جولائی کو آن ائیر ہوا خدا کی کرنی ایسی ہوئی کہ اگلے ہی روز خصوصی عدالت نے کاز لسٹ جاری کر دی اور اگلے ہفتہ سے ایفیڈرین کیس کی روزانہ کی بنیاد پر سماعت کو شیڈول کر لیا۔ مجھے لگا حنیف عباسی کی سنی گئی اور بظاہر حنیف عباسی جتنے پر اعتماد تھے لگ رہےتھے کہ اسمبلی کا ممبر دوبارہ بننے سے پہلے اپنے دامن پر لگا داغ وہ دھلوانے میں کامیاب ہو جائیں گے۔
21 جولائی2018 کو عدالت رات 11 بجے فیصلہ دیتی ہےکہ حنیف عباسی آئین کے آرٹیکل 9سی کے تحت عمرقید کی سزا کاٹیں گے اور 10 لاکھ روپے جرمانہ ادا کریں گے جرمانہ ادا نہ کر نے کی صورت میں ایک سال مزید قید کاٹنا ہوگی۔ جبکہ شریک ملزمان کو بری کر دیا گیا ۔رات کے اندھیرے میں جیل مینوئل کے برخلاف حنیف عباسی سلاخوں کے پیچھے منتقل کر دیئے گئے۔ ساتھ ہی ساتھ نا اہلی کی صورت میں ایک ممکنہ جیتی ہو نیشنل اسمبلی کی سیٹ سے بھی ہاتھ دھو بیٹھے۔
حنیف عباسی ایک مضبوط امیدوار تھے اور ان کی نا اہلی کا عذر پیش کرتے ہوئے الیکشن کمیشن نے پنڈی کے حلقہ 60 سے انتخاب ملتوی کر دیا بعد ازاں عوامی مسلم لیگ کے سربراہ شیخ رشید احمد اپنے بھتیجے شیخ راشد شفیق کو پی ٹی آئی کی ٹکٹ پر یہاں سے الیکشن لڑوا کر قومی اسمبلی کا ممبر بنانے میں کامیاب ہو گئے۔
حنیف عباسی کی سیاسی نیا ڈوب گئی۔
کہانی کا دوسرا رخ 11اپریل 2019 کو سامنے آتا ہے جب لاہور ہائیکورٹ حنیف عباسی کی سزا کو معطل کر کے ان کی رہائی کا پروانہ جاری کرتی ہے پھر ایک سال اور تین ماہ کے بعد دو جولائی 2020کو وہی خصوصی عدالت جس نے حنیف عباسی کو سزا سنائی تھی ایک اور فیصلہ دیتی ہے کہ حنیف عباسی کے منجمد اثاثے ان کو واپس کئے جائیں۔ مگر سوال یہ ہے کہ محض الزام پر ایک عدالت کے دو فیصلے حنیف عباسی کا المیہ یا ہمارے نظام انصاف کا نوحہ؟