نیا دور میڈیا کو وفاقی ترقیاتی ادارے کے ایک اہلکار نے نام نہ بتانے کی شرط پر بتایا کہ سی ڈی اے کی ٹیم آج پاکستان نیوی کے بنائے گئے کلب پہنچی تو ان کے ٹرک اور دیگر مشینری کو اندر جانے نہیں دیا گیا اور انتظار کے بعد کچھ افسران کو گیٹ کے اندر جانے کی اجازت ملی جس کے بعد تیسرا قانونی نوٹس کلب کی انتظامیہ کے حوالے کیا گیا اور ان کو بتایا گیا کہ یہ تعمیرات ماحولیاتی قوانین کے مطابق ممنوع ہیں۔
انھوں نے مزید کہا کہ اج ہمیں اندر جانے کی اجازت ملی جب کہ کچھ روز پہلے جب ہم تعمیرات کا جائزہ لینے کے لئے گئے تھے تو ہمیں گیٹ سے اندر جانے نہیں دیا گیا اور بتایا گیا کہ جو بھی اندر جائے گا وہ اپنی زندگی کا خود ذمہ دار ہوگا۔ انھوں نے مزید کہا کہ جب کچھ روز پہلے ہم وہاں پہنچے تو کلب کی اطراف کو سکیورٹی نے گھیر لیا تھا اور بتایا گیا کہ کوئی بھی اندر گیا تو ان کو گولی مار دی جائے گی۔
سی ڈی کی جانب سے 13 جولائی بروز پیر کو جاری ہونے والے نوٹس میں کہا گیا ہے کہ ہم نے کئی بار آپ کو احکامات دیے کہ غیر قانونی تعمیرات کو ختم کرو کیونکہ یہ سی ڈی اے قوانین کے خلاف ہے مگر ادارے کو اطلاع ملی ہے کہ غیر قانونی تعمیرات دوبارہ سے شروع ہوئیں جو قانون کی خلاف ورزی ہے۔ اس لئے غیر قانونی تعمیرات کو ختم کیا جائے۔ نوٹس میں مزید لکھا گیا ہے کہ ہم نے بار بار آپ کو خبردار کیا کہ آپ کی تعمیرات نہ صرف غیر قانونی ہیں بلکہ ادارے سے اجازت لیے بغیر آپ نہ صرف غیر قانونی تعمیرات میں ملوث ہیں بلکہ اس کے ساتھ ساتھ کلب کو دوبارہ سے فعال کیا گیا، اس لئے ادارہ اپ کو خبردار کر رہا ہے کہ ان غیر قانونی تعمیرات کو فوراً روکا جائے ورنہ تمام غیر قانونی تعمیرات کو مسمار کر دیا جائے گا۔
وفاقی ترقیاتی ادارے اور وزارت ماحولیات کے قوانین کے مطابق اسلام آباد کے زون تھری کے علاقے میں رہائشی، فارمنگ اور کمرشل سرگرمیوں کی اجازت نہیں کیونکہ یہ نہ صرف اسلام آباد وائلڈ لائف آرڈیننس (1980) کی خلاف ورزی ہے بلکہ اس کے ساتھ ساتھ اسلام آباد کی زوننگ ریگولیشنز 1992 کی بھی خلاف ورزی ہے۔ قوانین کے مطابق زون تھری میں تعمیرات پر اس لئے پابندی ہے کہ ماحولیات کے ساتھ یہاں قدرتی پودوں اور جنگلی جانوروں کی حفاظت کی جائے۔ قوانین میں مزید لکھا گیا ہے کہ یہاں پر نہ صرف غیر قانونی تعمیرات پر پابندی ہے بلکہ اس کے ساتھ ساتھ باؤنڈری وال تعمیر کرنا بھی اسلام آباد وائلڈ لائف آرڈینینس (1980) کی خلاف ورزی ہے جو نیوی سیلنگ کلب نے غیر قانونی طور پر تعمیر کیا۔
واضح رہے کہ یہ اسلام آباد میں اعلیٰ سطح پر دوسری غیر قانونی تعمیر ہے کیونکہ اس سے پہلے موجودہ وزیر اعظم عمران خان نے بھی غیر قانونی طور پر قوانین کی خلاف ورزی کرتے ہوئے زون تھری میں اپنی رہائش گاہ بنی گالہ میں تعمیر کی ہے جس کی قانونی اجازت نہیں لی گئی۔
سی ڈی اے کے ایک معتبر ذرائع نے نیا دور میڈیا کو بتایا کہ نیوی کلب کے لئے وفاقی ترقیاتی ادارے سے کوئی اجازت نہیں لی گئی تھی بلکہ کچھ مہینے پہلے کچھ افسران اُن پر دباؤ ڈال رہے تھے کہ راول لیک میں روزانہ کوئی نہ کوئی ڈوب جاتا ہے تو ہمیں اجازت دی جائے کہ ہم ان کو بچانے کے لئے کوئی ریسکیو سروس (Boating) شروع کریں مگر ادارے نے اس کو اجازت نہیں دی اور بعد میں معلوم ہوا کہ کئی کنال پر محیط ایک کلب بنا دیا گیا ہے جس کی زون تھری میں کوئی گنجائش نہیں۔
انھوں نے مزید کہا کہ قوانین میں یہ لکھا گیا ہے کہ اگر کوئی پہلے سے وہاں آباد ہے تو وہ اپنی تعمیرات میں خود سے توسیع نہیں کر سکتے بلکہ اس کے لئے سخت قوانین ہیں مگر اسلام آباد کی تاریخ میں پہلی بار یہ ہوا کہ مارگلہ ہلز کے نیشنل پارک ایریا کے اطراف میں کوئی کاروباری سرگرمی شروع ہوئی جو ماحولیات کو تباہ کر دے گی کیونکہ روزانہ کی بنیاد پر وہاں درجنوں لوگ آئیں گے۔
ذرائع نے مزید بتایا کہ کلب کی انتظامیہ نے کئی بار یہ توجیہ پیش کی کہ یہ کوئی کاروباری کلب نہیں ہے بلکہ اس کا کام راول لیک میں ڈوب جانے والوں کو ریسکیو کرنا ہے مگر اب انھوں نے باقاعدہ ممبرشپ بھی آفر کی جو بالکل کاروباری ہے۔ نیا دور کے ساتھ موجود (Project of Pakistan Navy welfare trust) کے مونو گرام پر جاری شدہ ایک اعلامیے میں پاکستان نیوی سیلنگ کلب ممبر شپ آفر کی گئی ہے جس کی تفصیلات کچھ یوں ہیں۔
پاکستان نیوی کے حاضر سروس اور ریٹائرڈ افسران کی کلب ممبرشپ کی فیس مبلغ دس ہزار روپے ہے جب کہ کشتی رانی اور سوئمنگ پول کی فیس ماہانا ایک ہزار روپے ہے۔ ممبر شپ کی تفصیلات میں مزید لکھا گیا ہے کہ پاکستان آرمی اور پاکستان ایئر فورس کے حاضر سروس اور ریٹائرڈ افسران کی فیس بھی مبلغ دس ہزار روپے ہے جب کہ کشتی رانی اور سوئمنگ پول کی فیس مبلغ 1500 اور 2000 روپے ہے۔ اعلامیے میں مزید کہا گیا ہے کہ سول بیوروکریسی کے افسران کی ممبر شپ فیس مبلغ ایک لاکھ پچاس ہزار روپے جب کہ کاروباری حضرات اور سفیروں کے لئے ممبر شپ فیس چھ لاکھ روپے مقرر کی گئی ہے۔
نیا دور میڈیا نے جب میٹرو پولیٹن کارپوریشن کے ایک افسر سے پوچھا کہ کیا یہ کلب قانونی ہے تو انھوں نے بتایا کہ یہ منصوبہ ماحولیات کے لئے تباہ کن ہے جس کے لئے کوئی اجازت نہیں لی گئی۔ انھوں نے مزید کہا کہ کچھ لوگ آ کر بتاتے ہیں کہ ادھر ہم کوئی ریسٹورنٹ کھولنا چاہتے ہیں تو ہم صاف بتاتے ہیں کہ یہاں اجازت کے بغیر اینٹ لگانا بھی جرم ہے مگر نیوی کلب نے ماحولیات کے محکمے سے کوئی رابطہ نہیں کیا اور نہ اجازت لی ہے۔
نیا دور میڈیا کو سی ڈی اے کے ایک اور افسر نے بتایا کہ کلب کی طرف سے ان کو کہا گیا کہ آنے والے دنوں میں انھوں نے چیئرمین سی ڈی اے سے ایک میٹنگ رکھی ہے اور تعمیرات کو مسمار کرنے کی نوبت نہیں آئے گی جس کے بعد سی ڈی اے کی ٹیم واپس آ گئی۔
جب اس حوالے سے چیئرمین سی ڈی اے عامر علی احمد سے رابطہ کیا گیا تو انھوں نے نیا دور میڈیا کو بتایا کہ ان کو اس حوالے سے کوئی معلومات نہیں کہ وہ ملاقات کرنا چاہتے ہیں اور شائد انھوں نے منصوبہ بندی ونگ سے رابطہ کیا ہوگا جس کا ان کو علم نہیں۔