عبدالستار ایدھی کا تعلق گجرات کاٹھیا واڑ کے معمولی سے گاؤں بانٹوا سے تھا،یہ تعلیم مکمل نہ کر سکے، کراچی میں کپڑے کا کاروبار شروع کیا وہ بھی کامیاب نہ ہو سکا۔ سوتر منڈی میں کسی نے مزدور کو چاقو مار دیا اور اسے ہسپتال پہنچانے کا بندوبست نہ تھا اس پر ایدھی صاحب مزدور کو ریڑھی پر ڈال کر ہسپتال لے گئے۔ یہاں سے آپ کے دل میں بے سہارا لوگوں کی مدد کا خیال پیدا ہوا اور ایدھی ٹرسٹ کے نام سے ایک ویلفئیر ٹرسٹ قائم کیا گیا۔ ایدھی صاحب مرحوم کے کار خیر میں مخیر حضرات دل کھول کر عطیات دیتے تھے اور اب بھی دیتے ہیں۔
ایدھی صاحب نے محض اپنے عزم،ولولے،جوش اور محنت سے دنیا کی سب سے بڑی ایمبولینس سروس قائم کر لی اور اس بنا پر آپ کا نام گنیز بک آف دی ورلڈ ریکارڈ میں شامل ہو گیا۔ ایدھی فاؤنڈیشن ملک میں 25 ہزار سے زائد بچوں کو ناجائز سے جائز مقام دلا چکی ہے۔ اس کے علاوہ ان کی فاؤنڈیشن فری نرسنگ ہوم،یتیم خانے،خواتین کے ادارے اور نشے سے چھٹکارے کے ادارے بھی چلاتی ہے۔
وہ اللہ پاک کے صوفی اور درویش صفت انسان تھے جو مذہب و فرقہ سے بالاتر ہو کر محض انسانیت کے لئے سادہ زندگی بسر کر رہے تھے۔آج کرپٹ طبقہ جہاں اپنی تجوریاں بھر کر اور اپنی آخرت خراب کرنے میں مصروف ہے وہاں ایدھی صاحب جیسے انسان مخبر حضرات سے روپیہ اکٹھا کر کے انسانیت کے لئے صرف کرنے میں مصروف تھے۔آپ کی سادگی اور انسانی ہمدردی کا یہ عالم تھا کہ جب ناداروں اور بے سہاروں کے لئے عطیات کی ضرورت پڑتی تو آپ کسی بھی فٹ پاتھ پر خود کپڑا بچھا کر بیٹھ جاتے اور مرد نقدی جب کہ عورتیں نقدی سمیت اپنے زیور اتار کے آپ کو عطیات کر جاتیں،اس طرح چند گھنٹوں کے اندر ہی آپ لاکھوں کے عطیات اکٹھے کر لیتے۔
آپ کی انسانیت دوستی اور ہر مذہب و فرقہ سے بالاتر ہو کر انسانیت کی خدمت کرنے کی وجہ سے مختلف فرقوں میں چھپے ہوئے انتہا پسند آپ پر بھی کافر کے فتوے لگانے سے باز نہیں آتے تھے۔ایک دفعہ ایدھی صاحب مرحوم سے اس بارے میں کسی نے پوچھا تو آپ نے کہا کہ، ”انتہا پسندوں کے ساتھ ان کی جنت میں جانے سے بہتر ہے کہ میں دوزخ میں چلا جاؤں“۔
آپ کو آپ کی بے مثال اور بے لوث انسانی خدمات کے بدلہ میں مختلف قومی اور بین الاقوامی اعزازات سے نوازا گیا جن میں سے چند ایک، لینن پیس پرائز (1988)‘پیس اینڈ ہارمونی ایوارڈ (2001) دہلی، نشان امتیاز (1989)‘ پیس ایوارڈ ممبئ (2004)‘آئی بی اے کراچی سے اعزازی ڈاکٹریٹ کی ڈگری(2006)‘ اور احمدیہ پیس پرائز (2010) وغیرہ شامل ہیں۔
اس میں کوئی شک نہیں کہ نفسا نفسی کے اس دور میں آپ جیسا انسان صدیوں میں پیدا ہوتا ہے۔اللہ کرے کہ جو صدقہ جاریہ وہ شروع کر کے گئے تھے وہ ان کی اولاد کامیابی سے کسی لالچ کے بغیر مخیرحضرات کے عطیات سے چلاتی رہے۔ یہ بھی اللہ سے دعا ہے کہ دیگر عوام بھی ایدھی صاحب کی طرح فلاح انسانیت کے کاموں میں بڑھ چڑھ کر حصہ لینے والے ہوں۔