دوسری خبر ایک تصویر سے متعلق ہے جس میں سفید کپڑوں میں ملبوس ایک شخص کو درختوں کے ساتھ باندھ دیا گیا ہے اور ان کا سر نیچے کی طرف جھکا ہوا اور یہ دعویٰ سامنے آ رہا ہے کہ اس کے ہاتھ چوری کرنے پر کاٹ دیے گئے ہیں۔ اس تصویر کی تاحال ذبیح اللہ مجاہد نے تو تردید نہیں کی لیکن ان کے چاہنے والے سوشل میڈیا اور واٹس ایپ گروپس میں بڑی تندہی کے ساتھ اس خبر کی حقیقت کو چیلنج کر رہے ہیں۔ پہلی خبر سے متعلق بھی کچھ ایسی ہی صورتحال ہے۔ جو لوگ اس تردید پر یقین نہیں کر رہے، انہیں بڑی کوشش سے سمجھانے کی کوشش کی جا رہی ہے کہ طالبان ایسے صفحے پر اپنا اعلامیہ جاری نہیں کرتے۔
اس خبر کی طالبان کے ترجمان کی تردید کے باوجود یہ یاد رہے کہ مقامی صحافی بضد ہیں یہ اعلامیہ جاری کیا گیا ہے۔ البتہ مقامی سطح پر جاری کیا گیا تھا اور سنٹرل کمانڈ اس کو ماننے کے لئے تیار نہ ہو تو اس میں کوئی تعجب کی بات نہیں ہے۔
سوال لیکن یہ ہے کہ اس سارے عمل میں تعجب کی بات ہے کون سی؟ انیسویں صدی میں سید احمد بریلوی جب ہندوستان سے اٹھ کر وادئ سوات میں اپنے لشکر سمیت پہنچے تھے اور وہاں سکھوں کے خلاف جہاد کر رہے تھے تو انہوں نے بھی یہی حکم تو دیا تھا۔ یہ اور بات ہے کہ اسی اعلامیے نے ان کی تباہی میں ایک اہم کردار بھی ادا کیا کیونکہ لوگ ان کے اس حکم کے خلاف ہو گئے اور موقع آنے پر ان کی مدد کو نہ پہنچے تھے۔ دیگر عوامل بھی یقیناً ساتھ رہے لیکن اس وقت اس تفصیل میں جانے کی ضرورت نہیں۔ اصل بات تو یہ ہے کہ جہاد کرنا ہے تو گھروں سے دور جانا ہوگا اور پھر دیر تک باہر رہنے کے لئے ایک ساتھی کی ضرورت بھی ہوتی ہے، لہٰذا یہ تو طالبان کا حکم ہونا کوئی حیرت کی بات ہی نہیں۔ حیرت کی بات البتہ یہ ضرور ہے کہ لوگ اسے ماننے سے انکار کر رہے ہیں۔ میری دانست میں ایسے لوگ یا تو طالبان سے بہت ہی شدید محبت رکھتے ہیں اور ان کے سہولت کار کے طور پر پاکستان کے شہری علاقوں میں ان کے لئے پبلک ریلیشنز کا کام انجام دے رہے ہیں، یا پھر تاریخ سے بالکل ہی نابلد ہیں۔
دوسری خبر تصویر والی ہے۔ اب بابا اس میں حیرانی کی کیا بات ہے؟ پریشانی تو چلیں سمجھ میں آتی ہے۔ اسلام میں چوری کی سزا ہاتھ کاٹنا ہے۔ مگر چونکہ وزیرِ داخلہ شیخ رشید صاحب فرما چکے ہیں کہ 'نئے طالبان' بہت 'مہذب' لوگ ہیں، جیسے ایک دور میں ان کے وزیر اعظم عمران خان نے ایم کیو ایم کو ایک دہشتگرد تنظیم بھی قرار دے رکھا تھا اور ساتھ ان کے لیڈران کو نفیس لوگ بھی کہا کرتے تھے، تو اب بیچارے نیم صحافی، نیم پبلک ریلیشنز ایجنٹ بضد ہیں کہ طالبان ایسی سخت سزاؤں کا تصور بھی نہیں کر سکتے۔ کیونکہ اب یہ کوئی نئے طالبان ہو چکے ہیں۔ اب تو یہ بھی سمجھ نہیں آتی کہ کون سا طالبان کون سا ہے۔ وہ جو سر کاٹ کر فٹبال کھیلا کرتے تھے، وہ ویسے ہی ہیں جیسے یہ مبینہ طور پر ہاتھ کاٹنے والے کیونکہ اب تو اعلیٰ عسکری قیادت یہ کہہ چکی ہے کہ تحریک طالبان پاکستان اور افغان طالبان میں کوئی فرق نہیں۔ وہ جو سر کاٹ کر فٹبال کھیلنے والے طالبان تھے وہ بھی کبھی افغان طالبان کا حکم آ جائے تو صلح کر لیا کرتے تھے۔ اور حکم دینے والے طالبان وہی تھے جو کابل کے فٹبال گراؤنڈ میں لوگوں کو پھانسیاں دیا کرتے تھے۔ اب ایک گروہ اقتدار میں آ ہی مذہب کو بنیاد بنا کر رہا ہے تو اس سے اور کیا توقع رکھی جا سکتی ہے؟
آپ مہربانی کریں۔ اپنے اوپر احسان کریں۔ اس حالتِ انکار سے باہر آ جائیں۔ یہی طالبان کی سوچ ہے۔ اور جتنی جلدی آپ اپنی ملازمت کی ذمہ داریوں پر قومی ذمہ داری کو فوقیت دیتے ہوئے عوام سے سچ بولنا شروع کر دیں، آپ کے اپنے حق میں بھی اتنا ہی بہتر ہوگا۔