تفصیلات کے مطابق شہزاد سلیم نے اسلام آباد ہائیکورٹ میں درخواست دائر کرتے ہوئے سیکریٹری نیشنل اسمبلی، پبلک اکاؤنٹس کمیٹی ونگ و دیگر کو فریق بنایا اور استدعا کی ہے کہ پبلک اکاؤنٹس کمیٹی کے نوٹس کو کالعدم قرار دیا جائے کیوں کہ پبلک اکاؤنٹس کمیٹی نے دائر اختیار سے تجاوز کرکے مجھے طلب کرنے کا نوٹس کیا۔
شہزاد سلیم نے اپنی درخواست میں کہا ہے کہ جب تک کیس زیر التواء ہے پبلک اکاؤنٹس کمیٹی کے نوٹس پر حکم امتناع جاری کیا جائے کیوں کہ طیبہ گل نے پبلک اکاؤنٹس کمیٹی میں بدنیتی پر مبنی درخواست دی ، طیبہ گل کی اسں سے قبل احتساب عدالت لاہور میں بھی درخواست زیر التوا ہے ، طیبہ گل سے متعلقہ درخواست فیڈرل شریعت کورٹ کے سامنے بھی زیر التوا ہے ، اس صورتحال میں پبلک اکاؤنٹس کمیٹی نے متوازی کارروائی کرتے ہوئے اپنے اختیارات سے تجاوز کیا۔
ڈی جی نیب نے درخواست میں موقف اختیار کیا ہے کہ یہ بھی خارج از امکان نہیں کہ چیئرمین پبلک اکاؤنٹس کمیٹی نے ذاتی مفاد کے لیے درخواست دلوائی ہو کیوں کہ چیئرمین پبلک اکاؤنٹس کمیٹی کے خلاف نیب انکوائری پہلے ہی زیر التوا ہے، یہ بھی ہو سکتا ہے چیئرمین کوئی بدلہ لینا چاہتا ہو یا اس طرح بلا کر اپنی انکوائری کے معاملے میں فائدہ لینا چاہتا ہو جب کہ متاثرہ خاتون کے لیے متعلقہ فورم موجود ہیں اس لیے پبلک اکاؤنٹس کمیٹی انکوائری شروع نہیں کر سکتی۔
علاوہ ازیں سابق چئیرمین جسٹس (ر) جاوید اقبال پر ہراساں کرنے کا الزام لگانے والی خاتون طیبہ گل کے پبلک اکاؤنٹس کمیٹی میں دئیے گئے بیان پر بھی ڈی جی نیب میجر (ر) شہزاد سلیم نے ردِعمل دیا ، جس میں انہوں نے کہا کہ میرے علم میں آیا ہے کہ طیبہ گل نے پبلک اکاؤنٹس کمیٹی کو آڈیو سنائی، طیبہ گل نے یہ آڈیو سنا کر گمراہ کیا، اس پر شدید احتجاج کرتا ہوں، آڈیو میں میری بات نگہت بھٹی سے ہو رہی ہے، نگہت بھٹی کو بتایا کیس میرٹ پر پورا اترنے تک کچھ نہیں کر سکتے، طیبہ گل کا کیس اور ہے جب کہ نگہت بھٹی کا اور کیس ہے، طیبہ گل سے میری کبھی کوئی بات نہیں ہوئی، اگر ایسا کہا گیا تو شدید احتجاج اور مذمت کرتا ہوں۔