صحافی کامران یوسف نے کہا کہ پیپلز پارٹی کا خیال ہے کہ پی ٹی آئی کے چیئرمین عمران خان کے ساتھ کافی کچھ ہو چکا ہے اور اب انہیں تھوڑا وقت دینا چاہیے۔
صحافی کا کہنا تھا کہ پیپلز پارٹی کو ایسا لگتا ہے کہ عمران خان کو نشانہ بنانے سے اسٹیبلشمنٹ مضبوط ہو رہی ہے اور انہیں خدشہ ہے کہ مستقبل میں انہیں بھی نشانہ بنایا جا سکتا ہے۔ اس لیے ان کے خیال میں عمران خان کو مزید نشانہ نہیں بنایا جانا چاہیے۔
پیپلز پارٹی کا خیال ہے کہ عمران خان ملک کے سابق وزیر اعظم ہیں اور سابق وزیر اعظم کا فوجی عدالتوں میں ٹرائل کا سامنا کرنا اچھی مثال نہیں۔
دوسری جانب پاکستان مسلم لیگ ن کی قیادت انتخابات میں تاخیر چاہتی ہے تاکہ نواز شریف تاحیات نااہلی کی پابندی ختم ہونے کے بعد الیکشن لڑیں اور انتخابی مہم کی قیادت کرسکیں۔
تاہم چیف جسٹس آف پاکستان عمر عطا بندیال کی مدت ملازمت ختم ہونے تک یہ ممکن نہیں اور وہ 16 ستمبر کو ریٹائر ہو رہے ہیں۔
جسٹس قاضی فائز عیسیٰ اگلے چیف جسٹس ہوں گے۔ توقع ہے کہ ان کے دور میں ن لیگ اور نواز شریف کو عدالتوں سے ریلیف ملے گا۔ صحافی نے کہا کہ نئے چیف جسٹس نواز کی سیاست میں واپسی کی راہ ہموار کریں گے۔
انہوں نے کہا کہ عمران خان نے سیاست میں دیوانہ وار غلطیاں کیں۔ خاص طور پر جب انہوں نے تحریک عدم اعتماد کے ذریعے وزیر اعظم کے عہدے سے برطرفی کے بعد پنجاب اور خیبرپختونخوا میں اسمبلیاں تحلیل کیں۔ انہوں نے یہ غلطیاں اس لیے کیں کیونکہ وہ سیاستدان نہیں ہیں۔
کامران نے کہا کہ حکومت کی آئینی مدت 14 اگست 2023 کو ختم ہو جائے گی اور اکتوبر یا نومبر میں انتخابات ہونے کا امکان ہے تاہم ابھی تک یہ تصدیق نہیں ہو سکی کہ انتخابات مزید تاخیر کا شکار ہوں گے یا نہیں۔