جسٹس گلزار احمد کی سربراہی میں سپریم کورٹ کے تین رکنی بینچ نے مختاراں مائی زیادتی کیس میں ملزمان کی بریت کے خلاف نظرثانی اپیل کی سماعت کی۔ سپریم کورٹ نے ملزمان کی بریت کیخلاف مختاراں مائی کی نظرثانی کی استدعا مسترد کردی۔
وکیل اعتزاز احسن نے کہا کہ جرم دور دراز کے علاقے میں ہوا، فیصلے میں لکھا گیا کہ مختاراں مائی پرزخم کا کوئی نشان نہیں، ریکارڈ سے بتاؤں گا کہ جسم پرزخم کے نشان تھے، آیا جرح میں ملزم کا اعتراف دفاع کو متاثر کرے گا؟۔
جسٹس گلزار احمد نے کہا کہ نظر ثانی میں اپیل کے گراؤنڈ (دلائل) نہیں لئے جاسکتے، نظرثانی میں صرف فیصلے کی غلطی کا بتایا جاتا ہے، کیس کو مختصر کریں ورنہ یہ دس سال یونہی پڑا رہے گا، فیصلے میں اٹھائے گئے نکات کو کسی دوسرے کیس میں زیرغور لائیں گے، کیس میں معروضات لکھوا دیں کسی دوسرے کیس میں ان نکات کا جائزہ لیں گے۔عدالت عظمیٰ نے سماعت کے بعد کیس کو نمٹادیا۔
2002ء میں پنجاب کے گاؤں میرانوالہ کی پنچایت کے حکم پر مختاراں مائی کو اجتماعی زیادتی کا نشانہ بنایا گیا۔ انسدادِ دہشت گردی کی عدالت نے 6 ملزمان کو جرم ثابت ہونے پر موت کی سزا سنائی۔ لیکن لاہور ہائی کورٹ نے عدم ثبوت کی بنا پر پانچ ملزمان کو رہا کر دیا اور ایک کی سزا عمر قید میں تبدیل کر دی۔ سپریم کورٹ نے بھی اس فیصلہ کو برقرار رکھا۔ مختاراں مائی نے ملزمان کی بریت کیخلاف اور سپریم کورٹ کے فیصلے پر نظرثانی درخواست کی جو مسترد کردی گئی