لاہور میں کرونا سے متعلق اجلاس کی صدارت کے بعد میڈیا سے گفتگو کرتے ہوئے وزیراعظم عمران خان نے کہا کہ امیر ترین ممالک بھی مکمل لاک ڈاؤن نہیں کر رہے ہیں تو پاکستان کمزور معیشت کے ساتھ کیسے متحمل ہوسکتا ہے۔ مکمل لاک ڈاؤن کا کمزور طبقہ پر سارا بوجھ پڑتا ہے۔
عمران خان نے کہا کہ لوگ کرونا وئرس کو سنجیدہ نہیں لے رہے ہیں اس لیے اب ہمیں سختی کرنی پڑے گی۔
وزیراعظم عمران خان نے کہا کہ لاہور میں کرونا تیزی سے پھیل رہا ہے۔ پاکستان امیر ملک نہیں کہ مکمل لاک ڈاؤن کیاجائے۔ شروع سے مؤقف ہے کہ کاروبار کو چلنا چاہیے۔ شروع سے کہا کرونا کا پھیلاؤ بھی روکا جائے اور کاروبار بھی چلتا رہے۔
وزیراعظم نے کہا کہ رواں سال بجٹ میں بھی ہمیں مشکلات کا سامنا کرنا پڑا۔ نیویارک امیر ترین شہر ہے لیکن وہ بھی معاشی بحران سے دوچار ہوچکا ہے۔
وزیراعظم نے کہا کہ لاک ڈاؤن کی وجہ سے نیویارک کا دیوالیہ نکل گیا تو سوچیں پاکستان کا کیا حال ہوگا۔ شروع سے کہا کہ ایس او پیز پرعمل کریں اور احتیاط کریں۔
انہوں نے کہا کہ جتنی دیر ملک بند کریں گے، اتنی معیشت برباد ہوگی۔ غریب ملکوں کیلئے سمارٹ لاک ڈاؤن بہترین آپشن ہے۔ اگر ہم کاروبار کا موقع دے رہے ہیں تو ایس او پیز پر ساتھ ساتھ عمل کریں۔
انہوں نے کہا کہ لوگوں نے موجودہ صورتحال میں احتیاط نہیں کی۔ لوگ کرونا وائرس کوسنجیدہ نہیں لے رہے۔ عوام احتیاط کریں گے تو ہسپتالوں پر دباؤ کم پڑے گا۔
عمران خان نے کہا کہ اب ہم سختی کریں گے اور سلیکٹڈ لاک ڈاؤن کریں گے۔ ہم نے کرونا کا پھیلاؤ روکنا ہے۔ پبلک جگہ پر بغیر ماسک کے جانے کی اجازت نہیں ہوگی۔ اپنے لیے، ملک کیلئے، بزرگوں کیلئے اورغریبوں کیلئے احتیاط کریں۔
دوسری جانب حکام نے ملک بھر میں کرونا وائرس کے ہاٹ سپاٹ کو شناخت کرتے ہوئے 1300 مقامات کو سیل کر دیا ہے تاکہ نئے انفیکشن کے پھیلاؤ کو روکا جا سکے۔ 1300 ہاٹ سپاٹ سیل کرنے کا فیصلہ ایک ایسے موقع پر کیا گیا ہے جب گذشتہ 24 گھنٹے کے دوران ملک بھر میں کرونا کے 6 ہزار 472 نئے کیسز رپورٹ ہوئے ہیں۔
پاکستان میں اب تک ایک لاکھ 32 ہزار 405 افراد میں وائرس کی تصدیق ہو چکی ہے جس میں سے 2 ہزار 551 افراد ہلاک ہو چکے ہیں۔
ملک بھر میں ابتدائی طور پر لاک ڈاؤن کے نفاذ کے بعد حکومت نے معیشت کا پہیہ چلانے اور غریب کو روزگار کی فراہمی کے لیے لاک ڈاؤن میں نرمی کردی تھی جس کے بعد سے ملک بھر میں کیسز کی شرح میں تیزی سے اضافہ ہوا ہے۔
ماہرین نے لاک ڈاؤن میں نرمی کی مخالفت کرتے ہوئے اس کو مزید سخت کرنے کا مطالبہ کیا تھا لیکن وزیراعظم نے اس تجویز کو مسترد کر دیا تھا۔ اس کے بجائے حکام نے سمارٹ لاک ڈاؤن کی اصطلاح متعارف کرائی تھی جس کے تحت ان علاقوں میں دکانوں، مارکیٹوں کو بند کر دیا گیا تھا جہاں کیسز میں اضافہ ہوا تھا۔