جو کہ سیاست میں آنے سے ڈرتے ہیں اور خود کو غیرسیاسی رکھتے ہیں عمران خان کی مسلسل اپیل نے ان غیر سیاسی طبقات کو سیاست کی طرف راغب کیا اور دیکھتے ہی دیکھتے عمران خان مذکورہ طبقات میں مقبول ترین رہنما کے طور پر سامنے آئے یہ وہ دور تھا۔ جب اسمارٹ فون اور انٹرنیٹ پوری طرح عام نہیں ہوا تھا۔ اس وقت پیپلزپارٹی کی حکومت کا دور تھا اور سوشل میڈیا پر اسی مذکورہ اپر مڈل کلاس اور مڈل کلاس طبقے کی اجارہ داری تھی جس کی وجہ سے پورے سوشل میڈیا پر صرف عمران خان ہی چھائے رہتے تھے۔ یہ کہنا بھی غلط نہ ہوگا کہ عمران خان نے سوشل میڈیا کوبھی سیاست زدہ کرنے میں اہم کردار ادا کیا لیکن پھر جیسے جیسے اسمارٹ فونز اور انٹرنیٹ عام ہوتا گیا عمران خان کی اجارہ داری بھی ختم ہوتی رہی لیکن اس دوران انہوں نے سوشل میڈیا کے ذریعے اپنی مقبولیت کا ایک الوزن قائم کردیا تھا۔
جس نے انہیں وزیراعظم بننے میں خاصی مدد کی اور یاد رہے کہ یہ سب خود بخود نہیں ہورہا تھا اس سب کے پیچھے تحریک انصاف کا پورا ایک منظم سوشل میڈیا ونگ تھا۔ جسے مبینہ طور پر مقتدرہ کی حمایت بھی حاصل تھی۔ تحریک انصاف کے سوشل میڈیا ونگ نے ہر غیر سیاسی اداکار کی فیک آئی ڈیز بنا کر ان آئی ڈیز سے عمران خان کے حق میں اور دوسری جماعتوں کی مخالفت میں مسلسل بیانات جاری کیئے جس کی وجہ سے اداکاروں کا پورا غیر سیاسی طبقہ بھی سیاسی ہوگیا کرکٹ کے کھلاڑی تو ویسے بھی عمران خان سے ہمدردی رکھتے ہیں اس کے علاوہ مختلف غیر سیاسی تقریبات جیسے کے شادی بیاہ کے موقع پر تحریک انصاف کے سیاسی ترانے ریکارڈ کروا کر ان تقریبات کو بھی سیاست زدہ کیا گیا یہ سب خوبخود نہیں ہوا بلکہ ایک منصوبے کے تحت یہ سب کیا گیا پھر خانہ کعبہ اور مسجد نبوی میں تحریک انصاف کے جھنڈے لہرا کر ان انتہائی مقدس اور غیر سیاسی مقامات کو بھی نہ بخشا گیا اور ایسی ویڈیوز اور تصاویر بنا کر سوشل میڈیا پر وائرل کی گئیں کہ جس سے ایسا معلوم ہوتا تھا کہ اگر چاند پر کوئی سیاسی جماعت موجود ہوسکتی ہے تو وہ تحریک انصاف ہوگی اور پھر کرکٹ کے غیر سیاسی میدانوں کو سیاسی نعروں سے تعفن زدہ کیا جاتا رہا۔
ہماری زندگی میں جو چند لمحات اور مقامات غیر سیاسی ہوا کرتے تھے ان سب میں سیاست کا زہر گھول کر زندگی کو اتنا گھٹن زدہ بنا دیا گیا کہ عمران خان کی مخالفت کرنے والا ہر شخص جاہل اور ان پڑھ یا پڑھا لکھا جاہل قرار پایہ اور اس کے باوجود بھی لوگ کہتے رہے کہ عمران خان کو سیاست نہیں آتی جبکہ کہنا تو یہ چاہیے تھا کہ سیاست صرف آتی ہی عمران خان کو ہے۔
آخر کار جب انتہائی متنازعہ اور دھاندلی زدہ الیکشن کے بعد عمران خان وزیراعظم بن گئے تو خیال کیا جارہا تھا کہ قومی اسمبلی میں کم عددی برتری اور الیکشن پر دھاندلی کے الزامات کی وجہ سے عمران خان دباؤ میں رہیں گے اور اپوزیشن کی جانب سے شدید احتجاج ہوگا جس کی وجہ سے عمران خان کے لئے حکومت کرنا مشکل ہوجائے گا لیکن کمال سیاسی مہارت سے عمران خان نے احتساب کا نعرہ بلند کردیا اور اپوزیشن پر حملہ آور ہوگئے جس کے بعد انہوں نے یہ بیانیہ عام کردیا کہ اپوزیشن کے الیکشن پر الزامات دراصل احتساب سے بچنے کا ایک بہانہ ہے ورنہ الیکشن تو انتہائی صاف اور شفاف تھے۔ حکومت اور نیب کی طرف سے پے در پے احتسابی حملوں کی گونج میں الیکشن میں دھاندلی کے الزامات بلکل غائب ہوکر رہ گئے پھر بھی لوگ کہتے رہے کہ عمران خان کو سیاست نہیں آتی۔
اب چینی اسکینڈل کو ہی لے لیں کس کمال مہارت سے عمران خان نے اس سارے معاملے کو متنازعہ اور سیاسی بنانے کی کی کوشش کی ہے۔ اور اس میں کامیاب بھی رہے ہیں اصل بات یہ تھی کہ جب ملک میں چینی سرپلس تھی ہی نہیں تو چینی ایکسپورٹ کی اجازت کس نے اور کیوں دی ؟ بجائے اس سادہ سے سوال کے جواب دینے کہ عمران خان کی من پسند جے آئی ٹی نے پورے معاملے کو گڈ مڈ کردیا اور سارے معاملے کو سبسڈی سے منسلک کرکے 1985 سے ابتک دی جانے والی سبسڈی کا احتساب شروع کروادیا جبکہ یہ بات سب جانتے ہیں کہ زرمبادلہ کمانے کےلئے اس حکومت سمیت ہر حکومت صرف شوگر ملز کو ہی نہیں بلکہ ٹیکسٹائل ار دیگر کئی شعبوں کو سبسڈی دیتی رہی ہے تاکہ ہم عالمی مارکیٹ کی قیمتوں پر اپنی مصنوعات بیچ کر زرمبادلہ کی کمی کو پورا کر سکیں لیکن پھر سارا معاملہ سبسڈی کتنی دی اور کس کس نے دی سے منسلک کردیا گیا اس کے علاوہ شوگر ملوں کے اندرونی کھاتوں اور کسانوں کو کی جانے والی گنے کی ادائیگیوں کی چھان پھٹک شروع کردی اور ساتھ ہی اپوزیشن کے رہنماؤں کی ان شوگر ملوں کو بھی شامل تفتیش کرلیا۔ جن ملوں نے اس دوران ایک بوری بھی ایکسپورٹ نہیں کی ایسا کرنے کا فائدہ یہ ہوا کہ کمیشن کی رپورٹ پر ہونا یہ چاہیےتھا کہ حکومت اس پر عمل درآمد نہیں کرتی اور جہانگیر ترین اور خسرو بختیار کو بچانے کی کوشش کرتی اس کے بجائے یہ ہوا کہ اپوزیشن بھی کمیشن کی تحقیقات پر اعتراضات کر رہی ہے اور جہانگیر ترین بھی اعتراضات کر رہے ہیں۔ جبکہ حکومت رپورٹ کو منظرعام پر لاکر کریڈٹ لے رہی ہے اسی دوران جہانگیر ترین موقع کا فائدہ اٹھا کر لندن جا پہنچے۔
اسی طرح آرمی چیف کی مدت ملازمت میں توسیع کے حوالے سے بھی عمران خان کی احتسابی پالیسی کارگر رہی عمران خان کے اپوزیشن جماعتوں پراحتسابی حملوں سے ایسا تاثر ابھرا کہ جیسے مقتدرہ کی تمام تر ہمدردیاں عمران خان کی حکومت کے ساتھ ہیں اور کچھ اپوزیشن کے سخت رویے کی وجہ سے بھی عمران خان مقتدرہ کی مجبوری بن گئے ہیں اس تاثر کو زائل کرکے کچھ ریلیف حاصل کرنے کے لئے اپوزیشن نے مدت ملازمت میں توسیع کی حمایت کی اور خاموشی اختیار کی پھربھی لوگ کہتے رہے کہ عمران خان کو سیاست نہیں آتی۔
اس کے علاوہ کرونا کے معاملے کو ہی دیکھ لیں شروع میں عمران خان نے اس معاملے میں خاموشی اختیار کی اور اسے زیادہ اہمیت نہ دی اور جب پیپلز پارٹی کی سندھ حکومت نے اس معاملے پر لیڈ لینے کی کوشش کی اور لاک ڈاؤن جیسا غیر مقبول فیصلہ لے کر اس پر عملدر آمد شروع کیا تو ظاہر ہے۔ لاک ڈاؤن سے عوام کو خاص طور پر غریب عوام کو مشکلات پیش آنے لگی تو عمران خان نے لاک ڈاؤن کی مخالفت کرنی شروع کردی اور عوام کی ہمدردیاں سمیٹنے کی کوشش کی۔ جبکہ حیرت انگیز طور پر اسلام آباد اور باقی تین صوبوں میں جہاں تحریک انصاف کی حکومت ہے وہاں لاک ڈاؤن بھی ہوتا رہا اس طرح عمران خان صرف عوامی غصے سے بچنے کے لئے کرونا جیسے حساس معاملے پر بھی سیاست کرتے رہے۔ اس کا فائدہ یہ ہوا کہ عوام لاک ڈاؤن سے پیدا ہونے والی مشکلات کا زمہ دار پیپلز پارٹی کو ٹہراتے رہے۔ اور عمران خان لاک ڈاؤن کی مخالفت کرکے عوام کی ہمدردیاں سمیٹتے رہے اسی ڈبل گیم کے نتیجے میں کرونا بھی بے قابو ہوگیا۔
اسی طرح بے شمار مواقعوں پر عمران خان نے زبردست سیاست کا مظاہرہ کیا ہے لہذہٰ ہمیں اب کم از کم یہ نہیں کہنا چاہیے کہ عمران خان کو سیاست نہیں آتی۔