اگر اسٹیبلشمنٹ نے حکومت کو مہلت نہ دی تو معاشی بربادی کا جواب اسے خود ہی دینا پڑے گا

12:11 PM, 13 Jun, 2022

نجم سیٹھی
مثالی طور پر ایک سالانہ بجٹ معاشی ڈھانچے کے عدم توازن کو درست کرتا ہے۔ سرمائے کی افزائش، ملازمتوں کے مواقع پیدا کرتا، معیار زندگی (خاص طور پر غریب افراد کا) میں بہتری لاتا اور دولت کی ناہمواری کم کرتا ہے۔ لیکن 2022-23  کا بجٹ کچھ حوالوں سے ان اہداف سے دور دکھائی دیتا ہے۔ یہ معاشی عدم توازن، جیسا کہ مالی اور تجارتی خسارے کو کم نہیں کرتا جو مہنگائی میں اضافے اور کرنسی کی قدر میں گراوٹ کا باعث بنتا ہے۔ یہ غیر پیداواری اخراجات، جیسا کہ دفاع، انتظامیہ اور سبسڈی کی دراز رسی کو کم نہیں کرتا۔ یہ شعبے محصولات کا بھاری حصہ ہڑپ کرجاتے ہیں۔ بدترین بات یہ ہے کہ مذکورہ بجٹ ملازمت کے مواقع کم کرتا اور معیار زندگی گھٹاتا ہے اور امیر اور غریب کے درمیان فرق کو بڑھاتا ہے۔

لیکن سچی بات یہ ہے کہ اس میں پی ڈی ایم حکومت کے فنانس منسٹر، مفتاح اسماعیل کا کوئی قصور نہیں۔ انھیں تحریک انصاف کی نکال باہر کی جانے والی حکومت کی طرف سے تباہ حال معیشت ملی تھی۔ اسے درست کرنے اور پٹری پر چڑھانے کے لیے طویل اور مشقت طلب کاوش درکار ہے۔ درحقیقت مفتاح اسماعیل صاحب کی مشکلات کی ذمہ داری دو حقائق پر آتی ہے جن کے رونما ہونے میں ان کا کوئی عمل دخل نہیں:  پہلا، تحریک انصاف نے آئی ایم ایف کے ساتھ ایک مشکل معاہدے پر پہلے ہی دستخط کردیے تھے۔ اب موجودہ وزیر خزانہ اس معاہدے سے انکارنہیں کرسکتے تھے ورنہ ملک مالیاتی طور پر دیوالیہ ہو جاتا۔ دوسرا، پی ڈی ایم کی حکومت کے پاس یہ گند صاف کرنے کے لیے زیادہ سے زیادہ پندرہ ماہ ہیں۔ بدترین بات یہ بمشکل ایک ماہ بعد یہ دوبارہ رائے دہندگان کے غصے کا سامنا کرنے پر مجبور ہوسکتی ہے۔ ان خوف ناک معروضات کے درمیان بجٹ بنانا یقینا ایک مشکل اور تکلیف دہ کام تھا۔

اس لیے مفتاح اسماعیل کو خراج تحسین پیش کرنا پڑے گاکہ اُنھوں نے نہ صرف اس چیلنج کو قبول کیا بلکہ مشکلات کے منجدھار سے بچ نکلتے بھی دکھائی دیے۔ اب مالی طور پر دیوالیہ ہونے کا اندیشہ ٹل چکا کیوں کہ آئی ایف ایم بجٹ اوروزیر خزانہ کے مثبت قدم اٹھانے کے عزم سے مطمئن ہوتے اگلے ماہ پاکستان کو پیکج دے گا۔ اس کے بعد مہربان عالمی مالیاتی ادارے اور مشرق وسطیٰ کے دوست ممالک کی طرف سے بھی امدادی رقوم کی آمد شروع ہوجائے گی۔

دوسری طرف یہ بھی ضروری نہیں کہ ہر کوئی مفتاح استعمال کے نسخے سے اتفاق کرے۔مختلف حلقوں میں بحث ہوگی، اور سیاسی معیشت کے اپنے اپنے امکانات کے تناظر میں اس کے حق میں اور مخالفت میں دلائل ارزاں کیے جائیں گے۔ مثال کے طور پراُنھوں نے توانائی کے بلند نرخوں کے دباؤ سے غریب آدمی کو بچانے کے لیے بے نظیر انکم سپورٹ پروگرام میں 364   ارب روپے رکھے ہیں جو پاکستان کے چودہ ملین گھرانوں تک پہنچیں گے۔ وزیر خزانہ غربت کم کرنے اورترقیاتی منصبوں کے لیے مزید رقم مختص کرسکتے تھے لیکن اس کے لیے دفاع سے رقم نکالنا پڑتی۔ اس سے طاقت ور غالب اور ہمہ گیر اسٹبلشمنٹ ناراض ہوجاتی۔ اُنھوں نے اشیائے تعیش پر ٹیکس بڑھایا لیکن ضروری ادویہ، زرعی مشینری،سولر سیل وغیرہ پر کم کردیا۔ کم از کم قابل ٹیکس رقم کی حد پچاس ہزار ماہانہ سے بڑھا کر ایک لاکھ روپے کردی ہے۔ دوسری طرف دولت مند افراد اور اداروں، جیسا کہ کمرشل بنکوں کی آمدنی، مالی مفاد اور جائیداد پر ٹیکس بڑھا دیا ہے۔ چھوٹے دوکان داروں پر بھی تین ہزار سے دس ہزار روپے ماہانہ بلواسطہ ٹیکس عائد کرکے اُنھیں بھی ٹیکس نیٹ میں لایا گیا ہے۔ اس کے خلاف کوئی احتجاج دیکھنے میں نہیں آیا ہے۔

اس کے باوجود کچھ کمی کوتاہی رہ گئی ہے۔ وزیر خزانہ کو پانچ ہزار روپے کے نوٹ کو ختم کردینا چاہیے تھا کیوں کہ یہ ملک میں کالے دھن کے انتقال کا سب سے بڑا ذریعہ ہے۔ اگر پانچ ہزار کا نوٹ ختم کردیا جائے تو لین دین بنک کے ذریعے ہوگااور مستند منی ٹریل مل جائے گی۔اس کی وجہ سے ٹیکس وصول کرنا اور ٹیکس کے دائرے کو بڑھانا ممکن ہوجائے گا۔اُنھیں وراثت میں ملنے والی جائیداد پر پراگریسو ٹیکس عائد کرنا چاہیے تھا۔ باپ کی موت کے بعد بیٹوں کوجائیداد کی منتقلی عام طور پر دولت مند افراد کی طرف سے ہوتی ہے۔ اُنھیں تعمیرات کے شعبے میں کالے دھن کے استعمال کے نتیجے میں ہونے والی معاشی نمو کے فائدے اور نقصان کا جائزہ لے کر اس کے مطابق پالیسی وضع کرنی چاہیے تھی۔ شوگر انڈسٹری اور مختلف برآمدی مال تیا ر کرنے والی صنعتوں کو دی جانے والی سبسڈی ختم کرنے کی ضرورت تھی کیوں کہ کرنسی کی قدر میں کمی نے اُنھیں مسابقت کے قابل بنا دیا ہے۔ اُنھیں تھوڑی سی ہمت دکھاتے ہوئے انڈیا کے ساتھ اہم اشیا کی تجارت بھی شروع کردینی چاہیے کیوں کہ اب ”جیواکنامک“ وجوہ کی بنا پر اسٹبلشمنٹ بھی اس کی مخالف نہیں۔ اس سے ذخیرہ اندوزی کی حوصلہ شکنی ہوگی،ضروری اشیا کے یک لخت مارکیٹ سے غائب ہونے کا سلسلہ رک جائے گا اور مہنگائی میں کمی آئے گی۔

لیکن ابھی نہ گند صاف ہوا ہے، نہ کام ختم۔ مفتاح اسماعیل نے بہت کھلے الفاظ میں خبردار کیا ہے کہ آئی ایم ایف بورڈ جولائی کے وسط میں ہونے والے اجلاس میں بجٹ میں کی گئی تجاویز پر غور کرے گا۔ عین ممکن ہے کہ وہ مزید سخت اقدامات پر اصرار کرے۔ اس لیے چند ماہ بعد منی بجٹ خارج از امکان نہیں۔

اس دوران سیاست ریاست اور معاشرے کو مزید زک پہنچانے کے لیے کمر بستہ ہے۔ محاذ آرائی کی کوئی بھی کیفیت معیشت کی بحالی کو خطرے میں ڈال سکتی ہے۔ عمران خان دھمکیاں دے رہے ہیں کہ وہ مہنگائی اور بے روزگاری سے پیدا ہونے والی عوامی بے چینی کا فائدہ اٹھا تے ہوئے اگلے ماہ پی ڈی ایم حکومت کو گھر بھیج دیں گے تاکہ اکتوبر میں ملک میں انتخابات ہوسکیں۔ ایسا ہونے کی صورت میں آئی ایم ایف پروگرام معطل ہوجائے گا جس کے ملک کے لیے تباہ کن نتائج برآمد ہوں گے۔ اس کی ملک کو دو سو بلین روپے قیمت چکانا پڑے گی اور بجٹ کا دھڑن تختہ ہو جائے گا۔ اور اگر عمران خان نے انتخابی نتائج قبول کرنے سے انکار کردیا یا ان کے نتیجے میں ایک کمزور مخلوط حکومت وجود میں آئی جو آئی ایم ایف پروگرام کو نافذ کرنے کی سکت نہ رکھتی ہوئی تو ملک ناقابل بیان سیاسی بحران کا شکار ہو جائے گا۔

پی ڈی ایم حکومت نے بلاشبہ سیاسی مفاد پر قومی مفاد کو ترجیح دی ہے۔ اس کا سیاسی مفاد اس میں تھا کہ پارلیمنٹ تحلیل کرتے ہوئے فوری انتخابات کی طرف بڑھ جاتی۔ اس وقت عمران خان کی پوزیشن خراب تھی۔ پی ڈی ایم کو تحریک انصاف کے پھیلائے گند کو صاف کرنے میں اپنے ہاتھ آلودہ کرنے کی ضرورت نہ تھی۔ درحقیقت اس نے اسٹیبلشمنٹ کی واضح ہدایت کے مطابق ”قومی مفاد“ (احمق، یہ معیشت ہے) میں ایسا کرتے ہوئے ”ووٹ کو عزت دو“ کے اپنے بیانیے کو بھی زک پہنچائی ہے۔ لیکن اگر اسٹیبلشمنٹ نے اب عمران خان کے دباؤ کے سامنے جھکتے ہوئے پی ڈی ایم حکومت کو اکتوبر 2023ء تک کارکردگی دکھانے کی مہلت نہ دی اور الیکشن کرا دیے تو اس کے نتیجے میں ہونے والی تباہی اور بربادی کے الزام کا جواب یہ خود ہی دے سکے گی۔
مزیدخبریں