خاندانی حکمرانی دنیا میں کوئی انوکھی چیز نہیں۔ ہمارے اپنے خطے میں ہی آزادی کے بعد 2014 میں نریندر مودی کے اقتدار میں آنے تک نہرو خاندان دہائیوں تک بھارت پر حکمرانی کرتا رہا۔ جواہر لعل نہرو 17 سال تک ملک کے وزیر اعظم رہے۔ ان کی صاحبزادی اندرا گاندھی قریب 16 برس، منموہن سنگھ نہرو خاندان ہی کی پراکسی کے طور پر 10 اور راجیو گاندھی 5 سال حکمران رہے۔ نہرو خاندان نے آزادی کے بعد 67 میں سے لگ بھگ 47 برس حکومت کی۔ اب خاندان اقتدار سے باہر ہے لیکن اس کی سیاست ختم نہیں ہوئی۔
فلپائن میں بھی متعدد سیاسی خانوادے رہے ہیں جن میں اکوئینو اور مارکوس خاندان زیادہ مشہور ہیں۔ فرڈیننڈ مارکوس 21 سال صدر رہا اور اپنے اور اہلیہ کے خلاف کرپشن الزامات پر ذلت آمیز انداز میں نکالا گیا۔ لیکن عوام یہ سب بھول چکے ہیں اور اس برس انہوں نے اس کے بیٹے کو ایک بار پھر انتخابات میں چن لیا ہے جب کہ اس کی بیٹی بھی سیاست میں موجود ہے۔
بینائینو اکوئینو جونیئر مارکوس دور میں اپوزیشن کا اہم ترین رہنما تھا۔ جب اسے قتل کیا گیا تو ہمدردی کے ووٹ نے اس کی بیوی کورازون اکوئینو کو صدر منتخب کروا دیا۔ کئی سال بعد اس کا بیٹا بینائینو اکوئینو ملک کا صدر بنا۔
سری لنکا اس کی بہترین مثال ہے۔ پچھلی دو دہائیوں سے مہندا راجا پکسا اس کی سیاست پر غالب رہا ہے۔ پہلے یہ 2005 سے 2015 تک صدر اور اس کے بعد سے اب تک وزیر اعظم رہا۔ ابھی کچھ ہی عرصہ پہلے تک ایک راجا پکسا بھائی صدر تھا، دوسرا وزیر اعظم، تیسرا وزیرِ دفاع اور چوتھا وزیرِ خزانہ تھا۔ حالیہ بحران کے بعد صدر نے اپنے وزیر اعظم بھائی کو نکال دیا، اس کے بعد ایک اور کو علیحدہ کر دیا لیکن سری لنکن سیاست پر خاندان کی گرفت اب بھی مضبوط ہے۔
اس سے پہلے سری لنکا پر بندرانائیکے خاندان کا راج تھا۔ سولومن بندرانائیکے 1956 سے 1959 تک وزیر اعظم رہا۔ اس کے قتل کے بعد اس کی بیوی سری ماوو بندرانائیکے 1960 سے 2000 کے دوران تین مرتبہ وزیر اعظم بنی۔ 1994 میں اس کی بیٹی چندریکا کماراٹنگا صدر بنی اور 11 سال اس عہدے پر برقرار رہی۔ 1994 سے 2000 تک ماں بیٹی دونوں ایک ہی وقت میں وزیر اعظم اور صدر رہیں۔
ایک ہی خاندان کے کئی افراد کا سیاست پر چھائے ہونا صرف جنوبی ایشیا تک محدود نہیں بلکہ دنیا کے تمام خطوں میں اس کی مثالیں ملتی ہیں۔ Historical Social Research جریدے نے سب سہارا، ایشیا، یورپ، جنوبی اور لاطینی امریکہ میں 2000 سے 2017 کے درمیان 1029 حکمرانوں یعنی صدور یا وزرائے اعظم پر تحقیق کی اور سامنے آیا کہ ان میں سے 12 فیصد کسی نا کسی سیاسی خاندان سے تعلق رکھتے تھے۔
لہٰذا موروثی سیاست سے امیدوار کو فائدہ تو ہوتا ہے۔ عمران خان سیاسی موروثیت کے بارے میں گلا پھاڑ کر چلاتے رہے ہیں۔ ان کے جلسوں میں عوامی شمولیت سے ثابت ہوتا ہے کہ ان کی سوچ قبولیتِ عام بھی رکھتی ہے۔
ان سیاسی خاندانوں نے جمہوریت کو کس آمرانہ انداز میں چلایا ہے اس پر بہت کچھ کہا جا سکتا ہے لیکن حقیقت یہ ہے کہ پچھلے 50 سالوں میں ملک کو تین ہی لوگوں نے چلایا ہے یعنی نواز شریف، بینظیر و زرداری اور جو بھی آرمی چیف رہا ہو، جب کہ عمران خان اس افق پر ایک نو وارد ہے۔
لیکن کیا عمران خان اس تری مورتی کو ایک مستقل نئی صورت دے سکتا ہے؟ شاید نہیں۔ اس کا مشن آگے لے جانے کے لئے اس کے پاس کوئی خاندان نہیں ہے۔ اس کی پارٹی غیر منظم ہے اور آگے کون آئے گا، کون نہیں، اس کے کوئی طے شدہ ضوابط نہیں ہیں۔ حقیقی انتخابات جماعت میں کبھی ہوئے نہیں کیونکہ نئے آنے والے لوگ مخصوص مفادات کو تہ و بالا کرتے اور اس سے پیدا ہونے والے ابتدائی جھٹکوں کو سہنے کی عمران میں ہمت نہیں تھی۔
عمران خان مغربی جمہوریت کے صاف ستھرے اصولوں کی بات کرتے ہیں اور اکثر ریاستِ مدینہ کا نام لیتے ہیں لیکن انہوں نے اپنی جماعت کے اندر کبھی حقیقی جمہوریت متعارف نہیں کروائی جو اسے ان دو موروثی جماعتوں سے ممتاز بناتی جنہیں عمران خان سخت ناپسند کرتے ہیں۔
بہت بھی ہوا تو عمران خان پاکستان پر 10 سال حکومت کر لیں گے۔ لیکن ان کے بغیر PTI کا کوئی وجود نہیں۔ شریف اور زرداری خاندانوں میں ایسے رہنما ہیں جو ابھی 30 یا 40 کے پیٹے میں ہیں اور وہ عمران خان کے جانے کا انتظار کر کے بعد میں حکمران بن سکتے ہیں جب انہیں چیلنج کرنے کے لئے کوئی PTI موجود نہیں ہوگی۔
اگر سیاسی اخلاقیات میں کوئی انقلابی تبدیلی رونما نہیں ہوتی تو عمران خان کی 26 سال کی تمام تر محنت اکارت جائے گی۔ اگر وہ چاہتے ہیں کہ ان کی کوششوں کا ثمر ان کے بعد بھی جاری رہے تو انہیں PTI کو جماعت کے اندر بنیادی جمہوریت پر مبنی اصولوں کے تابع بنانا ہوگا۔
تسنیم نورانی کا یہ مضمون ڈان اخبار میں شائع ہوا جسے نیا دور قارئین کے لئے ترجمہ کیا گیا ہے۔