این ڈی ایم اے کی جانب سے جاری بیان کے مطابق 13 تا 17 جون ماہی گیر، سیاح سمندر کا رخ کرنے میں احتیاط برتیں۔
این ڈی ایم اے نے وفاق، بلوچستان اور سندھ کے تما م ملحقہ اداروں کو ہائی الرٹ رہنے کی ہدایت جاری کی ہے۔ این ڈی ایم اے کا کہنا ہے کہ کسی بھی ہنگامی صورتحال میں مقامی انتظامیہ کی ہدایت پر عمل کریں۔
https://twitter.com/ndmapk/status/1668441974595092480?s=20
دوسری جانب محکمہ موسمیات نے سمندری طوفان بائپر جوائے سے متعلق نئی اپ ڈیٹ جاری کی ہے جس کے مطابق گزشتہ 12 گھنٹے کے دوران سمندری طوفان کا رخ شمال اور شمال مغرب کی جانب ہوا ہے اور اب یہ کراچی کے جنوب سے 470 کلومیٹر جب کہ ٹھٹھہ کے جنوب سے 460 کلومیٹر کی دوری پر ہے۔
محکمہ موسمیات نے خبردار کیا ہے کہ طوفان کے پیش نظر کراچی، حیدرآباد سمیت ٹنڈو محمد خان، ٹنڈو الہ یار اور میرپور خاص میں 14 سے 16جون کے درمیان آندھی اور موسلا دھار بارش متوقع ہے۔ 15 جون کی دوپہر تک طوفان کیٹی بندر اور بھارتی گجرات کو عبور کرے گا۔ کچھ مقامات پر انتہائی شدید بارش بھی ہوسکتی ہے۔
محکمہ موسمیات کے مطابق جنوب مشرقی سندھ میں تیز ہوائیں کمزور عمارتوں اور کچے مکانات کو نقصان پہنچا سکتی ہیں۔ طوفان کے دوران لہریں 8 سے 12 فٹ بلند ہوسکتی ہیں۔
ماہرین موسمیات کا خیال ہے کہ طوفان اپنا رخ تبدیل کرسکتا ہے۔ اگرایسا ہوا تو ساحلی علاقے تباہی سے بچ جائیں گے۔
اس حوالے سے ڈائریکٹر سائیکلون وارننگ سینٹر زبیر صدیقی کا کہنا ہے کہ سمندری طوفان سے کراچی کو براہ راست کوئی خطرہ نہیں ہے۔ 15 جون کو طوفان کیٹی بندر اور بھارتی گجرات تک ٹکرائے گا۔ کراچی میں بدھ کی شام سے بارش کا آغاز ہو سکتا ہے۔ کراچی میں 6 گھنٹے کے سپیل میں 100 ملی میٹر بارش متوقع ہے۔ بدھ کی شام شروع ہونے والی بارش جمعہ تک جاری رہ سکتی ہے۔
ڈائریکٹر سائیکلون وارننگ سینٹر کے مطابق سمندری طوفان کے باعث کراچی میں تیز ہواؤں کا امکان بھی ہے۔سائیکلون کا قطر کافی بڑا ہے جس میں کراچی بھی آرہا ہے۔
انتظامیہ کی طرف سے ڈیفنس کراچی کے رہائشیوں کو سی ویو اور درخشاں کے گھر خالی کرنے کا مشورہ دیا گیا ہے۔ اسی طرح رہائشیوں کو گھر کے داخلی دروازے پر سینڈ بیگز اور سیمنٹ کی عارضی دیوار بنانے کا بھی مشورہ ہے۔
سمندری طوفان کی کراچی سے دوری مزید کم ہوگئی۔سمندری لہریں ساحل کے قریب سڑک تک پہنچ رہی ہیں جبکہ سمندری پانی اورماڑہ میں داخل ہوگیا ہے۔
اورماڑہ میں پانی گھروں میں داخل ہوچکا ہے۔ سندھ حکومت کا کہنا ہے کہ آئندہ 3 سے 4 روز اہمیت کے حامل ہیں۔ طوفان نے راستہ بدلا تو کراچی اور سندھ کی پوری ساحلی پٹی متاثر ہوسکتی ہے۔
بحیرۂ عرب میں بننے والے سمندری طوفان بائپر جوائےکی شدت برقرار ہے جس کے اثرات بھارت اور پاکستان کے ساحلی علاقوں پر پڑ چکے ہیں۔ بلوچستان کے ساحلی علاقے اورماڑہ کے باسیوں کا کہنا ہے کہ سمندری پانی گھروں اور دکانوں میں داخل ہوچکا ہے۔
طوفان کے پیش نظر ٹھٹہ بدین اور سجاول سمیت ساحلی پٹی سے انخلا تیز کردیا گیا ہے۔طوفان کی آمد سے قبل 90 ہزار افراد کا انخلا مکمل کرنے کا ٹارگٹ ہے جس کے باعث کیٹی بندر شہر خالی کرایا جارہا ہے جب کہ بدین اور سجاول سے بھی متاثرین کی ریلیف کیمپوں میں منتقلی کی جارہی ہے۔
کراچی کینٹ، بدین اور حیدرآباد سے پاک فوج کے دستے امدادی کارروائیوں میں حصہ لینے ساحلی علاقوں میں بھیجے گئے ہیں جب کہ میرین سکیورٹی، رینجرز اور منتخب نمائندے ساحلی پٹیوں سے لوگوں کو محفوظ مقامات پر منتقل کرانے میں مصروف ہیں۔
محکمہ داخلہ بلوچستان نے سمندری طوفان بائپر جوائےکے خدشے کے پیش نظر بلوچستان کی سمندری حدود میں دفعہ 144 نافذ کرتے ہوئے سمندری حدود میں کشتی رانی، ماہی گیری اور نہانے پر پابندی عائد کر دی۔ پابندی کا اطلاق سمندری طوفان کے پیش نظر 17 جون تک ہو گا۔
سندھ کے شہر سجاول میں ہوا کے جھکڑ چلنے لگے ہیں۔ کشتیوں کے بادبان لپیٹ دیے گئے ہیں اور بدین سے لوگوں نے ٹرکوں اور ٹریکٹروں میں نقل مکانی شروع کردی ہے۔ 2000 سے زیادہ لوگ گھروں کو چھوڑ گئے ہیں۔
وزیر اطلاعات سندھ شرجیل میمن نے کہا ہے کہ صوبائی حکومت سمندری طوفان کی مسلسل مانیٹرنگ کر رہی ہے اس بار کلاؤڈ برسٹ کے خدشات ہیں۔
وزیر اطلاعات سندھ شرجیل میمن نے سمندری طوفان بائپر جوائے سے متعلق بریفنگ دیتے ہوئے بتایا ہے کہ صوبائی حکومت سمندری طوفان کی مسلسل مانیٹرنگ کر رہی ہے۔ اس بار کلاؤڈ برسٹ کے خدشات ہیں۔ پہلے اس کا رخ کراچی کی طرف تھا لیکن اب پھر تبدیل ہوکر رخ کیٹی بندر، ٹھٹھہ، سجاول اور بدین کی طرف ہوگیا ہے۔
شرجیل میمن نے مزید بتایا کہ وزیراعلیٰ سندھ نے ساحلی علاقوں کا دورہ کیا ہے اور متعلق متعلقہ حکام سے بات چیت کی ہے۔ بلند لہروں کے باعث کئی دیہات زیر آب آنے کا خدشہ رہتا ہے۔سجاول، ٹھٹھہ اور بدین سے لوگوں کی نقل مکانی ہو رہی ہے۔
ان کا کہنا تھا کہ کراچی میں بہت سے مقامات پر ترقیاتی کام چل رہے ہیں۔بارش ہونے کی صورت میں لوگوں کو اپنے گھروں میں رہنا چاہیے۔ دیگر شہروں میں کچے مکانات ہیں، وہاں نقصان زیادہ ہوتا ہے۔