نیب کی ٹیم میر شکیل الرحمان کو سخت سیکیورٹی میں احتساب عدالت لے کر پہنچی اور اس موقع پر عدالت کے اطراف بھی سیکیورٹی اور پولیس کی بھاری نفری تعینات تھی۔ میرشکیل الرحمان کی جانب سے ان کے وکیل بیرسٹر اعتزاز احسن عدالت میں پیش ہوئے اور انہوں نے پاور آف اٹارنی جمع کرائی۔ بیرسٹر اعتزاز احسن نے میر شکیل الرحمان سے ملاقات کی اجازت مانگی جس پر عدالت نے ملاقات کی اجازت دے دی۔
بعد ازاں عدالت نے کیس کی سماعت کچھ دیر کے لیے ملتوی کر دی۔
وقفے کے بعد سماعت کے آغاز پر عدالت میں میر شکیل الرحمان کے وکیل اعتزاز احسن نے کہا کہ نیب نے میر شکیل الرحمان کو کوئی نوٹس نہیں دیا، نیب کے پاس ان کو گرفتار کرنے کا اختیار نہیں، نیب کے چیئرمین نے وارنٹ گرفتاری پر دستخط کیے، ہمیں ابھی تک وارنٹ گرفتاری نہیں دیا گیا۔
اعتزاز احسن نے اپنے دلائل میں مؤقف اپنایا کہ 34 سال بعد میر شکیل الرحمان کو گرفتار کیا گیا جو بدنیتی ثابت کرتا ہے، انہوں نے ایل ڈی اے سے زمین نہیں خریدی، زمین تیسرے بندے سے قانون کے مطابق خریدی گئی، میرے مؤکل کی زمین میں کسی بھی قسم کی دو نمبری نہیں ہے، میرے مؤکل کا نام میر شکیل الرحمان ہے اس وجہ سے انہیں گرفتار کیا گیا۔
میر شکیل الرحمان کے وکیل نے مزید کہا کہ کچھ لوگ میرے مؤکل پر تنقید کرنے سے باز نہیں آتے، بزنس مین کو طلب کرنے سے پہلے قانونی طریقہ کار اختیار نہیں کیا گیا، خلاف قانون کارروائی نیب کی بدنیتی کو ظاہر کرتی ہے۔
اعتزاز احسن کا عدالت میں کہنا تھا کہ نیب نے 28 فروری کو طلبی کا نوٹس دیا، نیب نے جب طلب کیا وہ پیش ہوئے، میر شکیل الرحمان نے کس طرح قانون کی خلاف ورزی کی؟ 12 مارچ کو وہ دوبارہ نیب کے سامنے پیش ہوئے، نیب نے کوئی بات نہیں پوچھی بس کہا چیئرمین نیب کا حکم ہے، آپ کو گرفتار کیا جاتا ہے، میر شکیل الرحمان کہیں نہیں جا رہے، نیب نے ان کا مؤقف نہیں سنا اور گرفتار کر لیا، شاہد خاقان عباسی کو بھی نیب نے اسی طرح گرفتار کیا تھا، گذشتہ روز میر شکیل الرحمان نیب کے سوالوں کے جواب لے کر گئے تھے۔
اس موقع پر عدالت نے نیب پراسیکیوٹر حافظ اسد اللہ سے سوال کیا کہ میر شکیل الرحمان کو گرفتار کیوں کیا؟ اس پر پراسیکیوٹر نے بتایا کہ دسمبر 2019 میں میر شکیل الرحمان کے خلاف تحقیقات شروع کیں، نوازشریف جب وزیراعلیٰ تھے تو انہوں نے ان سے 54 پلاٹ حاصل کیے، میر شکیل الرحمان نے غیر قانونی طریقے سے ایل ڈی اے کے پلاٹ اپنے نام کروائے، یہ ان پلاٹوں سے متعلق ریکارڈ فراہم نہیں کرسکے۔
وکلا کے دلائل سننے کے بعد عدالت نے میر شکیل الرحمان کا 12 روزہ جسمانی ریمانڈ منظور کرتے ہوئے انہیں 25 مارچ تک نیب کی تحویل میں دے دیا جب کہ عدالت نے کیس کی مزید سماعت 25 مارچ تک ملتوی کر دی۔