سرمایہ دارانہ نظام اور کمیونزم میں سے کون سا نظام بہتر ہے؟

سرمایہ دارانہ نظام اور کمیونزم میں سے کون سا نظام بہتر ہے؟
پچھلے دنوں ایک ویب ٹی وی پر دو بہت ہی زبردست معلومات سے بھرپور انٹرویوز دیکھنے کا اتفاق ہوا۔ 'دیکھو سنو جانو' کے فیصل وڑائچ کسی تعارف کے محتاج نہیں ہیں۔ وہ اپنے ویب ٹی وی کے ذریعے تاریخ عالم سے متعلق بہت شاندار کام کر رہے ہیں۔ ہم بھی تاریخ کے طالب علم ہیں۔ ہمارے ذاتی کتب خانے میں دو موضوعات سے متعلق کتابیں ہمیشہ سے موجود ہوتی تھیں۔ ایک اردو ادب جس میں زیادہ تر فکشن اور دوسری تاریخ کی۔ بطور مصنف اور صحافی کے تاریخ کا طالب علم ہونا بہت ضروری ہے۔ اول تو ہر صاحب علم کو مطالعہ کی عادت کو اپنانا لازم ہے مگر چونکہ بدقسمتی سے ہمارے ہاں مطالعہ کا رواج نہیں ہے کتاب بینی کی عادت نہیں ہم کوئی علم دوست لوگ نہیں ہیں۔ ہمارے کتب خانے ویران ہیں اور کھانے پینے کے اڈے آباد ییں جس کی وجہ سے ہم فکری دیوالیہ پن کا شکار ہیں۔ ایسے میں فیصل وڑائچ کا تاریخ کے اوپر کام کرنا اور تاریخی واقعات پر وی لاگ کرنا قابل تحسین ہے۔

جب راقم پاکستان میں تھا اور 17 سال اشاعتی اور برقی ذرائع ابلاغ کے لئے کام کیا ہمیشہ کوشش کی کہ صاحب علم افراد کے انٹرویوز کروں تا کہ زیادہ سے زیادہ عوام میں آگاہی کی کوشش ہو۔ فیصل وڑائچ نے دو بہت ہی صاحب علم افراد کے انٹرویوز کیے۔ ایک وجاہت مسعود صاحب اور دوسرے تیمور رحمان صاحب تھے۔ وجاہت مسعود ایک بہت صاحب علم صحافی اور وسیع المطالعہ انسان ہیں۔ ان کی اردو زبان پر جو گرفت ہے اس سے بہت کچھ سیکھنے کا موقع ملتا ہے۔ پنجابی زبان کے صاحب کتاب شاعر بھی ہیں جبکہ تیمور رحمان صاحب بائیں بازو کے دانشور، استاد اور سنگر ہیں۔ وجاہت مسعود کمیونسٹ پارٹی آف پاکستان کے رکن رہ چکے ہیں۔ اب وہ اس نظام سے مایوس ہو چکے ہیں۔ وہ جدید مغربی جمہوریت کے داعی ہیں اور اس جمہوری نظام کو انسانوں کی بقا تصور کرتے ہیں جبکہ تیمور رحمان کمیونسٹ نظام کو دنیا کا سب سے بہترین نظام سمجھتے ہیں اور جدید مغربی جمہوریت کو سرمایہ داری نظام کا شکنجہ سمجھتے ہیں۔

ان دونوں صاحب علم افراد نے اپنے اپنے مؤقف کی تائید میں بہت پراثر دلائل دیے۔ ان دونوں صاحب علم افراد کی گفتگو سن کر ایک بات تو واضح ہو گئی کہ اگر آپ کسی مؤقف یا نظریہ کے ساتھ کھڑے ہیں تو پھر اس کی تاریخ پر عبور ہونا ضروری ہے۔ اگر اس ساری بحث کا لب لباب دیکھا جائے تو وجاہت مسعود کا یہ نکتہ بہت پراثر تھا کہ آخر کیا وجہ ہے جن ممالک میں کمیونسٹ نظام رائج رہا جیسے روس اور بلغاریہ وہاں اب یہ نظام ختم ہو چکا ہے تو پھر ان دونوں ممالک کے عوام کمیونسٹ نظام کی واپسی کے لیے کیوں نہیں کوئی تحریک چلاتے۔ یہ ایک جاندار دلیل تھی جبکہ تیمور رحمان کی یہ بات سمجھنے کی ضرورت ہے کہ کمیونسٹ نظام کے خلاف امریکی اور یورپی ممالک نے جو پراپیگنڈہ کیا اور جس طرح میڈیا کو استعمال کیا وہ بھی سب کے سامنے ہے اور آج امریکہ اور یورپی ممالک میں جو فلاحی ریاست کا قیام عمل میں آیا ہے اس کے پیچھے کمیونسٹ نظام کا خوف ہے۔

حرف آخر فیصل وڑائچ کے یہ دونوں انٹرویوز جو انہوں نے وجاہت مسعود اور تیمور رحمان کے کیے ییں وہ قابل تحسین ہیں اور معلومات کا ایک خزانہ ہے جو ان دونوں پروگراموں میں موجود ہے مگر بطور مصنف اور صحافی ایک مشورہ ہے۔ فیصل بھائی دوران انٹرویو دانشور کو بہت زیادہ ٹوکتے ہیں اور یہ بات کہتے ہیں کہ آسان زبان استعمال کریں۔ فیصل بھائی کو دوستانہ مشورہ ہے یہ بات درست ہے کہ اپنی بات عام آدمی تک پہنچانے کے لئے آسان زبان کا استعمال کرنا چاہئیے مگر جب تک کسی بھی آدمی کے اندر کوئی حکمت کوئی نئی بات سیکھنے کا جذبہ پیدا نہیں ہو گا تب تک وہ کچھ نہیں سیکھ سکتا۔ اس لیے ہر بات کو آسان زبان میں کہنا کوئی ضروری نہیں بلکہ نئی بات سیکھنے کا جذبہ بیدار کرنا ضروری ہے۔

حسنین جمیل 17 سال سے صحافت سے وابستہ ہیں۔ وہ افسانوں کی تین کتابوں؛ 'کون لوگ'، 'امرتسر 30 کلومیٹر' اور 'ہجرت' کے مصنف ہیں۔