اماراتی حکام نے اس بارے میں مزید کچھ بھی بتانے سے انکار کر دیا ہے کہ تخریب کاری کی نوعیت کیا تھی اور اس کا ذمہ دار کون ہو سکتا ہے؟
تاہم، تخریب کاری کا یہ واقعہ امریکہ کی جانب سے خبردار کیے جانے کے چند گھنٹوں کے بعد پیش آیا جس نے متحدہ عرب امارات کو متنبہ کیا تھا کہ ایران اور اس کے اتحادی خطے میں سمندری ٹریفک کو نشانہ بنا سکتے ہیں۔
واضح رہے کہ امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ کے ایران اور دیگر عالمی اداروں کے ساتھ 2015 میں کیے گئے جوہری معاہدے سے دستبرداری اور ایران پر پابندیوں کے دوبارہ نفاذ کے باعث ایرانی معیشت شدید بحران کا شکار ہو گئی ہے جس سے دونوں ملکوں میں کشیدگی میں غیر معمولی اضافہ ہوا ہے۔
گزشتہ ہفتے ایران نے واضح طور پر یہ کہا تھا کہ اگر عالمی طاقتیں معاہدے کی شرائط پر بات چیت کرنے میں ناکام رہیں تو وہ 60 روز میں یورینیئم کی افزائش بلند ترین سطح پر شروع کر دے گا۔
دوسری جانب اماراتی وزارت خارجہ نے اپنے ایک بیان میں کہا ہے کہ وہ مقامی اور بین الاقوامی تعاون سے اس واقعہ کی تفتیش کر رہے ہیں۔
بیان میں مزید کہا گیا ہے کہ جہازوں کو کوئی نقصان نہیں ہوا اور نہ ہی ان میں سے کسی قسم کا خطرناک مواد یا ایندھن خارج ہوا۔
اس خطے کی نگرانی کرنے والے امریکی بحریہ کے پانچویں فلیٹ اور اماراتی حکام نے اس معاملے کے حوالے سے کی جانے والی تفتیش کے حوالے سے کسی قسم کی معلومات فراہم کرنے سے انکار کر دیا ہے۔
واضح رہے کہ لبنان کے ایران نواز سیٹلائیٹ چینل ’’ المایدین‘‘ نے خلیجی ذرائع کے حوالے سے غلط طور پر یہ خبر نشر کی تھی کہ فجیرہ بندرگاہ پر سلسلہ وار بم دھماکے ہوئے ہیں جس کے بعد ایران کے سرکاری اور نیم سرکاری میڈیا نے المایدن کی یہ رپورٹ خود بھی نشر کی اور بعدازاں اس رپورٹ میں واقعہ کے دوران مبینہ طور پر دہشت گردی کا نشانہ بننے والے جہازوں کے ناموں کا ذکر بھی کیا۔ تاہم، بعدازاں یہ خبر غیر مصدقہ ثابت ہوئی۔
واضح رہے کہ فجیرہ بندرگاہ آبنائے ہرمز سے 85 کلومیٹر کی دوری پر واقع ہے جہاں سے دنیا میں تیل کی مجموعی پیداوار کا ایک تہائی حصہ گزرتا ہے۔