پاکستان کے سینئر صحافی و کالم نگار سلیم صافی نے روزنامہ جنگ میں اپنے کالم بعنوان ’’نون لیگ اور چوہدری نثار‘‘ میں اہم انکشافات کیے ہیں۔
سلیم صافی نے اپنے کالم میں جہاں سابق وزیر داخلہ چوہدری نثار کے مسلم لیگ ن کے ساتھ تعلقات اور 2014 میں عمران خان کے دھرنے کو مدد فراہم کرنے کے الزامات پر بات کی ہے وہیں یہ انکشاف بھی کیا ہے کہ شہباز شریف، نواز شریف کی نااہلی سے لے کر اب تک اسٹیبلشمنٹ کے ساتھ رابطے میں ہیں اور اسٹیبلشمنٹ کی بھی یہ خواہش ہے کہ تعلقات کو خوشگوار رکھنے کے لئے شہباز شریف کو آگے لایا جائے۔
انہوں نے اپنے کالم میں مزید لکھا کہ مسئلہ یہ ہوا کہ میاں شہباز شریف اپنے بڑے بھائی کو اپنا ہمنوا نہ بنا سکے اور نہ خود اُن کا انقلابی بیانیہ اپنا سکے۔ گڈ کاپ اور بیڈ کاپ کی اس پالیسی کی وجہ سے ہی مسلم لیگ ن کو ضرورت سے زیادہ رگڑا ملا اور پی ٹی آئی کو ضرورت سے زیادہ نوازا گیا۔ ہاں البتہ اب کی بار شہباز شریف جو کچھ کر رہے ہیں، اس میں میاں نواز شریف اور مریم صاحبہ پوری طرح ان کے ہمنوا ہیں۔ اب انہوں نے بھی بڑی حد تک شہباز شریف کے بیانیے کو قبول کر لیا ہے۔
سلیم صافی نے دعویٰ کیا کہ عمران خان کو علم ہے کہ اب کی بار سارے شریف بالاتفاق شریف بنے ہوئے ہیں اور ان کا خیال ہے کہ درمیان میں کرونا نہ آتا تو شہباز شریف کی اس پالیسی نے ابھی تک رنگ دکھا دینا تھا اور اب بھی انہیں خدشہ ہے کہ کرونا کے ختم ہوتے ہی شہباز شریف کی یہ شریفانہ پالیسی ان کے لئے مشکلات پیدا کر سکتی ہے، اس لئے وہ انہیں دوبارہ پھنسا کر فضا کو مقدر کرنا چاہتے ہیں۔
چوہدری نثار کے حوالے سے بات کرتے ہوئے سلیم صافی نے کہا کہ ایم این اے جاوید لطیف نے سہیل وڑائچ کی طرح چوہدری نثار علی خان کو قربانی کا بکرا بنانے کی کوشش کی۔ اتنی ہمت تو ظاہر ہے کوئی کر نہیں سکتا کہ 2014 دھرنے کے پیچھے اصل قوتوں کا نام بتا دے اس لئے جاوید لطیف صاحب نے سارا ملبہ چوہدری نثار علی خان پر ڈالنے کی کوشش کی۔
سلیم صافی کا کہنا ہے کہ انہوں نے یہ غلط تاثر دیا کہ چوہدری نثار درپردہ عمران خان سے ملے ہوئے تھے۔ حقیقت یہ ہے کہ چوہدری صاحب، خان صاحب اور قادری صاحب کے دھرنے کو آبپارہ سے آگے جانے کی اجازت دینے کے حق میں نہیں تھے۔ میں ذاتی طور پر جانتا ہوں کہ انہوں نے عمران خان کو خبردار کیا تھا کہ اگر انہوں نے آگے بڑھنے کی کوشش کی تو وہ ان سے آہنی ہاتھوں کے ساتھ نمٹیں گے۔ چونکہ وزیراعظم جانتے تھے کہ چوہدری نثار ماننے والے نہیں اور وہ پٹائی کروائیں گے اس لئے ان کو بائی پاس کر کے راتوں رات انہوں نے اس وقت کے سیکرٹری داخلہ کے ذریعے پولیس کو یہ آرڈر جاری کروا دیا کہ وہ کارروائی روک کر دھرنا دینے والوں کو ڈی چوک تک آنے دیں۔
انہوں نے مزید لکھا کہ محترم میجر عامر نے مجیب الرحمٰن شامی کے شو میں جو بات کہی، اس کا میں بھی گواہ ہوں کہ بائی پاس کر کے وزیراعظم کی طرف سے براہِ راست دھرنے والوں کو ڈی چوک تک آنے پر چوہدری صاحب اتنے برہم تھے کہ استعفیٰ دے رہے تھے اور میجر عامر جیسے دوستوں نے ان کو منع کیا۔
سلیم صافی نے اپنے کالم میں یہ بھی لکھا کہ اس بات کا بھی مجھے ذاتی طور پر علم ہے کہ الیکشن سے قبل جہاں مقتدر حلقوں کا دباؤ تھا، وہاں عمران خان نے کئی گھنٹے تک ان (چوہدری نثار) کی منتیں کیں کہ وہ ان کی پارٹی میں آجائیں اور ان کے بعد پارٹی اور حکومت دونوں میں جو بھی پوزیشن لینا چاہیں لے لیں۔ وہ اس وقت یہ پیشکش قبول کرتے تو آج عمران خان کے بعد دوسری طاقتور شخصیت ہوتے لیکن میجر عامر کے اس دعوے کا بھی مجھے ذاتی طور پر علم ہے کہ چوہدری نثار نے سب پیشکشیں اس بنیاد پر ٹھکرا دیں کہ وہ اس اسٹیج پر نہیں بیٹھ سکتے جہاں سے نواز شریف اور ان کے خاندان کو گالیاں پڑ رہی ہوں۔ یہی وجہ ہے کہ انتخابات میں ان کو بھی وہی سزا دی گئی جو دیگر مخالف پارٹیوں کے امیدواروں کو دی گئی۔
یاد رہے کہ کچھ عرصہ قبل چودھری نثار علی خان لندن گئے تھے اور اس دوران متعدد مرتبہ خبر آئی تھی کہ وہ نواز شریف سے ملاقات کرنے والے ہیں لیکن ایسا نہ ہو سکا تھا۔
اسی دوران سینیئر صحافی مرتضیٰ سولنگی نے نیا دور ہی کے پلیٹ فارم سے یہ خبر دی تھی کہ یہ افواہیں چودھری نثار خود پھیلا رہے تھے جب کہ حقیقت یہ تھی کہ چودھری صاحب نے اپنی اہلیہ کے ذریعے اسحاق ڈار سے سفارش کروانے کی کوشش کی تھی لیکن اس میں انہیں کامیابی حاصل نہیں ہوئی تھی۔ ذرائع نے دعویٰ کیا تھا کہ اسحاق ڈار نے چودھری نثار سے یہ کہہ کر معذرت کر لی تھی کہ جب نواز شریف جیل میں تھے اور چودھری صاحب لندن گئے تھے تو انہیں بارہا پیغام بھجوایا گیا تھا کہ بیگم کلثوم نواز کی عیادت کے لئے تشریف لے آئیں تاکہ کل کو نواز شریف صاحب کے ساتھ تعلقات ٹھیک کرنے میں آسانی ہو، لیکن چودھری نثار نے انکار کر دیا تھا، اور میڈیا پر آ کے کہا تھا کہ میں ذاتی نوعیت کے دورے پر ہوں، کسی کی عیادت کرنے نہیں آیا۔ اسحاق ڈار کا کہنا تھا کہ اب نواز شریف کسی صورت انہیں معاف کرنے کے لئے تیار نہیں۔