بشیر احمد کے ہاں دوسری بیٹی کی پیدائش ہوئی۔ لیکن اس لیے خوش تھا کہ چلو یہ بڑی بیٹی مائزہ کی طرح معذور تو نہیں ہے ۔ بڑی محبت سے اس کا نام فائزہ رکھا۔ معمولی سا سرکاری نوکر بشیر احمد پچپن برس کی عمر میں ہارٹ اٹیک سے وفات پا گیا۔ فائزہ کے کمزور کندھوں پر معذور بہن اور بوڑھی ماں کا بوجھ آگیا۔ فائزہ جیسے تیسے محلے کے بچوں کو ٹیوشن پڑھا کر اور مرحوم باپ کی پینشن سے گھر کا گزر بسر کرتی رہی اور اپنی تعلیم مکمل کر لی کہ چلو کوئی اچھی نوکری مل جائے گی تو گھر کے حالات بہتر ہو جائیں گے۔ فائزہ کو یقین تھا کہ بہت جلد ان کے حالات بدلنے والے ہیں لیکن وہ نہیں جانتی تھی ابھی زندگی نے اور بہت امتحان لینے ہیں۔
برقع پہنے وہ جب نوکری کی تلاش میں ایک جگہ سے دوسری جگہ آتی جاتی تو محلے والوں نے شک کی نظر سے دیکھنا شروع کر دیا ہائے یہ آخر کہاں گھومتی پھرتی ہے ۔ ہائے باپ کا سایہ نہ ہو تو لڑکیاں ایسے خراب ہو جاتی ہیں ضرور اس کا کسی کے ساتھ چکر چل رہا ہے ہائے دیکھو تو اپنے مرحوم باپ کی عزت کا زرا بھی پاس نہیں۔ ہائے اللہ ایسی اولاد کسی کو نہ دے۔ الغرض جس کے منہ میں جو آتا کہہ دیتا ۔ دوسری طرف وہ جہاں بھی نوکری کے حصول کے لیے در بدر خاک چھان رہی تھی وہاں بھی مردوں کی شکل میں بڑے عہدوں پر بیٹھے درندے اس کو نوچنے کو تیار بیٹھے تھے۔ بی بی یہ برقع یہاں نہیں چلے گا ٹھیک ہے آپ کی تعلیم اچھی ہے لیکن ہمارے دفتر میں ماڈرن لباس پہن کر آنا پڑے گا ماشااللہ آپ اتنی حسین ہیں آپ کو حسن چھپانے کی کیا ضرورت آپ ایک کام کریں پرسنل سیکرٹری کی نوکری مل جائے گی تنخواہ بھی پچاس ہزار باقی مراعات الگ تھوڑا خود کو گروم کریں آپ میں کسی چیز کی کمی نہیں۔
یہ فقرے، جملے بازیاں سنتے سنتے فائزہ راتوں کو پھوٹ پھوٹ کر روتی۔ اللہ سے شکوے کرتی کہ اے اللہ اگر حسن دینا تھا تو اس معاشرے کا محتاج کیوں کیا؟ بوڑھا ہی سہی باپ کا سایہ تو تھا وہ کیوں چھین لیا؟ اے اللہ میری مشکلیں کب آسان کرے گا ؟ ایک دن صبح کے اخبار میں سرکاری اساتذہ کی بھرتی کا اشتہار دیکھا تو سوچنے لگی یہاں تو رشوت یا سفارش لگے گی میرے پاس تو دونوں نہیں ۔ سوچ میں تھی کہ معذور بہن مائزہ نے پوچھا کیا ہوا؟ کہنے لگی سرکاری نوکری ہے لیکن مِلے گی نہیں ۔ ماں نے باورچی خانے سے آواز دی بیٹا ہمت تو کرو کیا پتہ اللہ ہمارے دن پھیر دے ۔ فائزہ نے لمبی سی آہ بھری کہا کاش۔ بہر حال نہ چاہتے ہوئے بھی وہ قسمت آزمانے چلی گئی۔ امتحان دیا اور اِس یقین کے ساتھ گھر واپس آئی کہ یہاں کچھ نہیں ہوگا چند دن بعد گھر پر خط موصول ہوا کہ آپ نے امتحان میں ٹاپ کیا ہے آپ کو انٹرویو کے لیے فلاں تاریخ کو آنا ہے۔
فائزہ چِلائی، امی میں پاس ہوگئی امی اب مجھے نوکری مل جائے گی۔ امی آپ کی دعائیں قبول ہوگئیں ۔ بڑی بہن مائزہ کو گلے لگا کر رو پڑی ہاتھ اُٹھاتے ہوئے کہا شکر ہے تیرا میرے مالک شکر ہے تیرا تو نے مجھ پر کرم کیا ۔ اُسے یقین تھا کہ اب ضرور نوکری مل جائے گی ۔ اور آخر انٹرویو کا دن آگیا وہ پر اُمید ہو کر انٹرویو دینے پہنچی انٹرویو دیا اور واپس گھر آگئی چند دن بعد آفر لیٹر کے ساتھ خط موصول ہوا اُسے نوکری مل گئی تھی ۔ فائزہ دوڑ کر اپنی ماں کے گلے لگ کر پھوٹ پھوٹ کر رونے لگی ۔ اماں اللہ نے ہماری سن لی ماں کی آنکھیں بھی نم تھیں۔ جھلی تجھے کہتی تھی نا اللہ کے ہاں دیر ہے اندھیر نہیں۔۔
یوں فائزہ کی زندگی بدلنے لگی ۔ اب وہ باعزت روزگار سے اپنے گھر کا خرچہ اٹھا رہی تھی ۔ ایک دن شدید بارش تھی سکول سے واپسی پر کوئی رکشہ نہ مل رہا تھا تو ساتھی اُستانی نے کہا آؤ میں تمہیں گھر چھوڑ آؤں گی، میرا بھائی ابھی آتا ہی ہوگا ۔ فائزہ اپنی ساتھی اُستانی کے ساتھ چل پڑی ۔ محلے میں اُتری تھی کہ محلے کی چند خواتین نے گاڑی سے اترتے دیکھ لیا ۔ اب تو شک یقین میں بدل گیا تھا ہائے ہائے میں نہ کہتی تھی اس لڑکی کے لچھن ٹھیک نہیں۔ دیکھو تو کتنی بڑی گاڑی سے اتر کہ آرہی ہے ۔ دِکھانے کو برقع تو ایسے پہنا ہوتا ہے جیسے اس سے زیادہ شریف زادی کوئی نہیں اور کرتوت دیکھو اللہ معافی اللہ توبہ کیا زمانہ آگیا ہے ۔ مرے ہوئے باپ بوڑھی ماں کی عزت کا بھی خیال نہیں ۔
یہ چہ مگوئیاں آخر فائزہ کے گھر تک پہنچ گئیں کمیٹی جمع کرنے والی بلقیس خالہ نے ایک دن کہہ دیا ہائے بہن برا نا مانو یہ شریفوں کا محلہ ہے اپنی بیٹی پر نظر رکھو لوگ طرح طرح کی باتیں کر رہے ہیں ۔ ہائے اب تو محلے میں گاڑیاں آنے لگی ہیں ۔ محلے کی اور بچیوں پر کیا اثر پڑے گا ۔ میری مانو اپنی بیٹی کی شادی کرا دو ۔ اللہ نا کرے جوان بچی ہے کوئی غلط قدم نا اٹھا لے۔ ہائے توبہ آج کل کا زمانہ تو بہت خراب ہے۔ فائزہ کی ماں کو زمین اپنے پیروں تلے سے سرکتی ہوئی محسوس ہورہی تھی اُسے اپنے کانوں پر یقین نہیں آرہا تھا ۔ کچھ دیر بعد فائزہ سکول سے واپس آئی تو موقع پاتے ہی ماں نے پوچھ لیا تم آج کل کہاں آتی جاتی ہو محلے والے طرح طرح کی باتیں کر رہے ہیں بیٹا ہم غریب ہیں پر عزت دار ہیں روکھی سوکھی کھا کر ساری زندگی گزاری لیکن اپنی عزت پر سودا نا کیا ۔ کوئی ایسا قدم نا اٹھانا کہ ہماری عزت خاک میں مل جائے ۔
فائزہ کو حیرت کا جھٹکا لگا اور ماں سے کہنے لگی اماں آپ کو اپنی بیٹی کی پرورش پر پورا یقین ہونا چاہئیے۔ نا میں نے کوئی غلط قدم اٹھایا نا کبھی ایسا سوچ سکتی ہوں ۔ فائزہ چیخ چیخ کر رونا چاہ رہی تھی لیکن اس کے آنسو بھی اب خشک ہو چکے تھے۔ شائد اُسے اب یہ سب سننے کی عادت ہوچکی تھی ۔ فائزہ کے لیے رشتے آنے لگے تو محلے والوں کے بد چلن کے ٹھپے کی وجہ سے وہ بھی انکار کر جاتے فائزہ اب اٹھائیس سال کی پڑھی لکھی وہ لڑکی ہے جس پر محلے والوں نے بد چلن کی مہر لگا دی ہے۔ فائزہ دن بھر خود کو تھکا کر گھر آتی ہے راتوں کو اپنا سرہانہ آنسوں سے بھر کہ سو جاتی ہے اور صبح پھر سے کام پر چلی جاتی ہے ۔ آپ کے آس پڑوس میں ایسی انگنت فائزہ ہیں جن پر محلے والوں نے بد چلن ہونے کی مہر لگا دی ہے۔۔
کبھی فرصت نکالیں کسی یتیم مسکین غریب فائزہ کی ماں سے پوچھیں بہن گھر میں راشن کی تکلیف تو نہیں بہن کوئی مسئلہ پریشانی ہو تو مجھے اپنا بھائی سمجھ کر یاد کیجیے۔ بہن آپ کی بیٹیاں ہماری بیٹیاں ہیں ۔ شائد کوئی فائزہ آپ کے محلے میں جینا سیکھ جائے ۔ بزرگ فرما گئے ہیں جب استطاعت رکھنے والے لوگ اللہ کی راہ میں خرچ نہیں کرتے تو غریب کی بیٹیوں کی عزتیں نیلام ہوتی ہیں۔