تم لوگ تو اپنے تھے مسلمان تھے آخر ۔۔۔
کچھ کرنے سے کچھ کہنے سے کیوں تم رہے قاصر ۔۔۔
مظلوم سے تھا بغض یا ظالم کے محبان ۔۔۔
درجات کی سیڑھی پر ہم جب چڑھیں گے ۔۔۔
بارگاہ رب میں ایک عرض کریں گے ۔۔۔
ہم کٹتے رہے اور تھے خاموش مسلمان ۔۔۔
رمضان المبارک کا الواعی جمعہ اور شب قدر کی بابرکت رات ہر طرف اپنے پر پھیلائے ہوئے تھے ۔ ہر طرف عبادت کے پرنور اور روح پرور مناظر تھے ۔ مسلمان عقیدت و محبت کے ساتھ مسجدوں میں ایک خدا مطلق کے سامنے اپنے دامن کو پھیلائے بیٹھے تھے۔ اور اللہ سے مغفرت کی بھیک مانگنے میں مصروف تھے ۔ ایسے میں اچانک بیت المقدس میں دنیا کے سب سے بڑی دہشت گرد اسرائیلی افواج دھاوا بولتی ہیں۔ جس میں نہ صرف مسجد کی بے حرمتی کی گئی۔ بلکہ عورتوں بچوں اور بزرگوں کی پروا کئے بغیر ان پہ ظلم و ستم کے پہاڑ توڑ ے گئے ۔ دہشت گردی کی اس واردات میں ربڑ کی گولیاں اور اسٹین گرینیڈ سے نہتے فلسطینوں کو نہ صرف زخمی کیا گیا بلکہ 17 نہتے فلسطینی بشمول معصوم بچے دہشت گردی کی اس واردات میں جام شہادت نوش کر گئے ۔
بیت المقدس فلسطین کا دارالحکومت ہے ۔ یہ وہ جگہ ہے جہاں حضرت مریم کو انکی والدہ بی بی حنہ نے اس مسجد کیلئے وقف کر دیا تھا ۔پھر اسی شہر میں حضرت عیسیٰ علیہ اسلام کی پیدائش ہوئی اور ادھر سے انہوں نے تبلیغ کا آغاز کیا ۔ معراج میں نماز کی فرضیت سے لے کر تقریباً 17 ماہ تک مسلمانوں نے اسی قبلہ کی طرف نماز ادا کی ۔ یہ مسلمانوں کا قبلہ اول ہے۔ یہ فلسطین انبیا کرام علیہ سلام کا مسکن ہے ۔
کسی غیر مسلم کا کتا بھی مر جائے تو یورپی یونین انسانیت کا سبق سکھانے اس مسئلے میں کود جاتی ہے ۔ مسئلہ کسی امریکی سیاہ فام کا ہو یا کسی یہودی کا یورپی یونین انسانیت کا چارٹر اٹھائے آ جاتی ہے مگر چھوڑیں - فلسطین تو ایک پسماندہ ملک ہے جس کی آبادی مسلمان ہے یہ کوئی سیاہ فام نہیں جن کی ایک پکار پہ یورپی یونین کے در و دیوار تک لرز جائیں یہ تو نہتے فلسطینیوں کی فریاد اور آہ و زاریاں ہیں ۔ جن سے یورپی یونین کا کوئی واسطہ نہیں ۔ انسانیت کے علمبردار اور انسانی حقوق کے جھوٹے دعویداروں کیلئے فلسطینی تو شاید انسان ہی نہیں ۔ صرف فلسطینی ہی کیوں جہاں بھی معاملہ مسلمانوں کی زندگی اور عزت کا ہو ۔ وہاں یورپی یونین غفلت کی میٹھی نیند سوتی نظر آتی ہے ۔ شاید عالمی ضمیر بے حسی کی چادر اوڑھے منافقت کی اس دوڑ میں اتنا مگن ہے کہ اسے مسلمانوں کا لہو نظر نہیں آ رہا ۔ اور مسلمانوں کا لہو اس قدر بے توقیر ہے کہ اس پہ نہ تو کوئی آواز اٹھے گی نہ مہم چلائی جائے گی ۔
گزشتہ سال ایک سیاہ فام کی ایک تصویر وائرل ہوئی تھی جس میں امریکن پولیس افسر سیاہ فام کی گردن پہ اپنے پنجے گاڑے کھڑا تھا ۔ اس تصویر پہ انسانی حقوق کے عالمی ادارہ کی چیخیں نکل گئی تھی۔ نہ صرف یہ بلکہ ٹوئٹر پہ دو دن تک سیاہ فارم طبقے کے حق میں مہم چلائی گئی جس میں بیت سے ممالک کی شخصیات نے حصہ لیا۔
جبکہ دوسری طرف سوشل میڈیا پہ ایک تصویر زیر گردش ہے جس میں یہ واضح طور پہ دیکھا جا سکتا ہے کہ ایک مریم عساف نامی فلسطینی لڑکی کی گردن میں ایک اسرائیلی فوجی اپنا گھٹنا گاڑے کھڑا ہے ۔ مگر عالمی ارادہ برائے انسانی حقوق کی طرف سے ایک بیان بھی جاری نہ ہو سکا تو مجھے یہ کہنے میں کوئی عار نہیں کہ یورپی یونین انسانیت کے حقوق کی علمبرداد نہیں بلکہ صرف غیر مسلموں کے حقوق کی محافظ ہے ۔ خیر ان سے کیا گلہ انکے لئے مسلمانوں کی زندگی اور عزت کی کوئی اہمیت ہی نہیں ۔
مگر اسرائیلی فوجی کا گھٹنا مریم عساف کی گردن پہ نہیں بلکہ 57 مسلمان ممالک کی غیرت اور عزت پہ ہے ۔ مگر اس گھٹنے کا دباؤ محسوس کرنے کیلئے ضمیر کا زندہ ہونا شرط ہے ۔ یہی رویہ اگر کسی مسلمان ملک نے کسی غیر مسلم لڑکی کے ساتھ کیا ہوتا تو اب تک عالمی سطح پہ کہرام مچ جاتا ۔ اور یورپی یونین کے دو و دیوار تک ہلا کر رکھ دیئے جاتے۔ لیکن یہ ایک فلسطینی لڑکی ہے جس سے کسی ملک کا کوئی تجارتی فائدہ منسلک نہیں اور نہ ہی کسی قسم کے کوئی فنڈز ملنے کی امید ہے ۔ لہذا اس پہ ظلم و جبر کرنے کا سرٹیفیکیٹ اسرائیل کو یورپی یونین نے خود دیا ہے ۔
رہی بات جنگ کی تو جنگ تو وہاں ہوتی ہے جہاں دونوں فریقین برابری پہ ہوں اگر ایک کے ہاتھ میں اسلحہ ہو تو دوسرے کے ہاتھ میں بھی اسلحہ ہو ۔ لیکن اگر ایک گروہ اسلحے سے لیس ہو جبکہ دوسرے کے ہاتھ میں فقط پتھر ہو تو وہ جنگ نہیں ظلم ہے ۔ یہ ظلم اسرائیل فلسطین پہ 1948 سے کرتا آ رہا ہے ۔ اسرائیل کو لڑنے کا اتنا شوق ہے تو مقابلے کا دائرہ کار وسیع کرے ۔ مسلم ممالک کو چاہیئے کہ ایک مرتبہ اپنی طاقت دکھا دیں ۔ تمام اسلامی ممالک سعودیہ، ترکی، ایران ، پاکستان اور مشرقی وسطی کے ممالک کو صرف ایک مرتبہ زبانی بیان بازی سے نکل کر صلاح الدین ایوبی والا کام کرنا ہوگا ۔ صرف ایک مرتبہ اس ناجائز ملک کو اسکی حیثیت یاد کروانے کی ضرورت ہے اسکے بعد یہ کبھی سر بھی نہ اٹھا سکے گا مسلمانوں کے سامنے۔
یہی وقت ہے جب حق و باطل میں ایک پختہ لکیر کھینچ دی جائے ۔ یہی وقت ہے جب مومن اور برائے نام مسلمان کی راہیں الگ ہوجانی چاہیئے ۔ سوال یہ ہے کہ اگر ہم اپنے قبلہ اول کی پامالی پہ بھی خاموش رہے تو پھر تو شاید کبھی ہم بول ہی نہ سکیں گے ۔ مجھے ڈر ہے کہ کہیں اس ظلم پہ خاموش رہنے پر ہماری قوت گویائی سلب نہ کر لی جائے۔
مگر بحیثت مسلمان کیا ہم اس پاک سر زمیں اور قبلہ اول کے لئے کبھی متحد نہیں ہو سکتے ؟ کیا ہم پہ اب بھی جہاد فرض نہیں ہوا ؟ کیا ہماری افواج اور ہماری ایٹمی طاقت بس دکھاوا ہے نہ ہم کشمیر کیلئے لڑے نہ فلسطین کیلئے لڑیں گے ۔ اگر ہم آج بھی خاموش رہے اور اسی بات پہ قائم رہے کہ "جنگ کسی مسلئےکا حل نہیں" تو پھر انتظار کریں اس وقت کا جب ہمارا حال فلسطینیوں سے بھی بدتر ہوگا کیونکہ پھر سب کی باری آئے گی ۔ اور ہم بھی اپنے ہاتھ پاھں باندہ کر اس تماشے کو اپنی آنکھوں سے دیکھ کر بھی خاموش رہیں گے اور یہی کہیں گے کہ "جنگ تو کسی مسئلے کا حل نہیں ہوتی"۔
اس مشکل وقت میں اس امر کی اشد ضرورت ہے کہ تمام مسلمان ممالک متحد ہو کر سب سے بڑی دہشت گرد ریاست کے خلاف نہ صرف جہاد کا علم بلند کریں بلکہ انہیں انکے منتقی انجام پہ پہنچا کر پوری دنیا کو یہ پیغام دیں کہ جب بات انسانیت کی ہو اور جب بات قبلہ اول کی ہو تو ہم مسلمان اپنے وسائل اور فائدے اور نقصان کی پروا کیے بغیر جہاد کا علم بلند کریں گے ۔