حکومت کا گورنر پنجاب کو ہٹانا کیا آئین کی خلاف ورزی ہے؟

05:20 AM, 13 May, 2022

عبداللہ مومند
حکومتِ نے گذشتہ ہفتے گورنر پنجاب عمر سرفراز چیمہ کو عہدے سے ہٹانے کا نوٹی فکیشن جاری کر دیا جس پر صدرِ عارف علوی نے اعتراض اٹھا دیا تھا۔

وزیراعظم شہباز شریف نے گورنر پنجاب کو ہٹانے کے لیے دو بار ایڈوائس صدر پاکستان عارف علوی کو بھیج دی تھی لیکن دونوں بار صدر کی جانب سے ان کو مسترد کیا گیا جس کے بعد کابینہ ڈویژن نے گورنر پنجاب عمر سرفراز چیمہ کو عہدے سے ہٹانے کا نوٹی فکیشن جاری کر دیا جبکہ صدرِ پاکستان عارف علوی نے حکومت کے اس اقدام پر اعتراض اٹھاتے ہوئے کہا ہے کہ انہوں نے گورنر کو ہٹانے کی وزیرِ اعظم کی ایڈوائس مسترد کر دی ہے۔

لیکن گورنر پنجاب کے ہٹانے کے بعد ایک بحث سیاسی اور میڈیا کے حلقوں میں گردش کررہی ہے کہ کیا گورنر صدر کی منظوری کے بغیر ہٹایا جاسکتا کیونکہ آئین کے آرٹیکل 101 کی شق 3 کے مطابق گورنر، صدر کی رضامندی تک اپنے عہدے پر برقرار رہے گا۔

آئین کے شق 48 ون کے مطابق وزیر اعظم صدر پاکستان کو گورنر ہٹانے کی ایڈوائس بھیجے گا جس کے بعد صدر پاکستان اس کو منظور کریگا یا پندرہ دن کے اندر اندر کوئی اعتراض لگا کر یا نظر ثانی کے لئے واپس بھیج دیگا اور اگر وزیر اعظم دوبارہ یہی ایڈوائس صدر کو بھیجے گا اور صدر اس پر عمل نہیں کرتا تو گورنر آئینی طور پر اپنے عھدے سے فارغ ہوجائے گا۔ آئین کے مطابق ساتھ ہی وزیر اعظم گورنر کے عھدے کے لئے نئے نام بھی صدر مملکت کو ارسال کریں گا۔

قانونی اور آئینی ماہر شاہ خاور ایڈوکیٹ کہتے ہیں کہ صدر کی رضامندی آئینی طور پر وزیر اعظم کی منشا کی تابع ہے کیونکہ آئین میں صدر پاکستان کو ایسا کوئی اختیار حاصل نہیں کہ وہ وزیر اعظم کے تجویز کو مستقل بنیادوں پر مسترد کریں۔

وہ کہتے ہیں کہ وزیر اعظم اگر صدر کو گورنر ہٹانے کی سمری بھیجے تو صدر یا تو اس پر عمل درآمد کردیتا ہے یا پھر پندرہ دن کے اندر اندر کوئی اعتراض لگا کر وزیر اعظم کو واپس بھیج دیتا ہے جس کے بعد وزیر اعظم دوبارہ سمری صدر کو بھیج دیتا ہے۔ شاہ خاور ایڈوکیٹ کہتے ہیں آئین کے مطابق صدر وزیر اعظم کے تجویز کو دس دن کے اندر اندر منظور کرنے کے پابند ہے ورنہ گورنر آئینی طور پر خود ہی اپنے عھدے سے فارغ ہوجاتا ہے۔

قانونی اور سیاسی ماہرین کی رائے ہے کہ صدر مملکت کو پتہ ہے کہ آئینی طور پر گورنر ہٹانے اور نئے گورنر لگانے کے عمل میں وہ زیادہ دیر رکاوٹ نہیں بن سکتے ہیں لیکن موجودہ حالات میں پاکستان تحریک انصاف نے یہ لائحہ عمل اپنا لیا ہے کہ ملک میں آئینی بحران کو برقرار رکھا جائے تاکہ نئی حکومت ملک پر توجہ نہ دیں اور آئینی بحران برقرار رہے۔

کیا آئین کے آرٹیکل 101 کے شق تین کے تخت گورنر تب تک اپنے عھدے پر برقرار رہے گا جب تک صدر کی رضامندی شامل ہو پر شاہ خاور ایڈوکیٹ کہتے ہیں کہ ایسا بلکل نہیں ہے اور صدر کی رضامندی وزیر اعظم کے ایڈوائس سے مشروط ہے اگر وزیر اعظم رضامند نہیں تو صدر کی رضامندی کی کوئی آئینی حیثیت نہیں ہے۔

پاکستان تحریک انصاف کے الیکشن کمیشن اور عدالتوں میں نمائندگی کرنے والے قانون دان فیصل چوھدری ایڈوکیٹ کہتے ہیں کہ آئین کے رو سے نیا گورنر لگانے کا اختیار وزیر اعظم پاکستان کے پاس ہوتا ہے لیکن گورنر کو ہٹانے کا اختیار صدر پاکستان کے اختیار میں ہے اور جب تک ان کو مرضی شامل نہ ہو تب تک گورنر کو نہیں ہٹایا جاسکتا ہے اور پنجاب کے گورنر کے معاملے میں جو کچھ ہوا وہ بادی النظر آئین کی خلاف ورزی لگتی ہے۔

ایک سوال کے جواب میں فیصل چودھری ایڈوکیٹ کہتے ہیں کہ آئین کے آرٹیکل41 کے تخت صدر پاکستان ریاست کا سربراہ ہوتا ہے اور ریاست کے سربراہ کے ساتھ اس طرح سلوک نہیں کیا جاسکتا۔ فیصل چودھری ایڈوکیٹ کہتے ہیں کہ آئینی طور پر گورنر کے پاس خاص اختیارات نہیں ہوتے بس ویسے حکومت ڈر گئی ہے۔
مزیدخبریں