اسلام آباد میں پریس کانفرنس کرتے ہوئے رانا ثنااللہ نے کہا کہ 9 مئی سے 11 مئی تک 3 دن ملک میں فتنہ فساد، سرکاری اور حساس دفاعی تنصیبات پر حملے کیے گئے۔ شہدا کی یادگاروں کو نذر آتش کیا گیا اور لوگوں کے گھروں پر حملے کیے گئے۔ اپنے سیاسی مخالفین کے گھروں پر حملہ کرنا ہمارا سیاسی کلچر نہیں رہا۔ مخالفین کے گھروں پر حملے کا کلچر تحریک انصاف نے شروع کیا۔ تحریک انصاف کے لوگوں نے پہلے لوٹ مار شروع کی پھر آگ لگائی۔ اسکولوں، ایمبولینسز اور ریڈیوپاکستان کی عمارت کو جلایا گیا۔ جن لوگوں نے یہ حملے کیے ہیں کیا ان کے گھر خلا میں ہیں۔ ان کے گھر بھی اسی زمین پر ہیں تو پھر اس قوم کو کس طرف دھکیل رہے ہیں۔عمران خان کو بتانا چاہتےہیں کہ آپ کے گھر بھی یہیں ہیں۔
رانا ثنااللہ نے کہا کہ یہ کون سا سیاسی کارکن ہو سکتا ہے جو ایمبولینس سے مریضوں کو نکالے اور ایمبولینس کو آگ لگا دے، اسکولوں اور ریڈیو پاکستان کو آگ لگائے۔
ان کا کہنا تھا کہ ہم کہتے رہے ہیں یہ شخص سیاسی لیڈر نہیں بلکہ یہ ایک فتنہ ہے اور اس کا مقصد ملک میں افراتفری، انارکی اور فساد پھیلانا ہے۔ اسی مقصد کے تحت یہ پوری جدوجہد کر رہا ہے۔
انہوں نے کہا کہ یہ کوئی سیاسی جماعت یا سیاسی کارکن نہیں ہیں۔ یہ ایک مخصوص مائنڈ سیٹ ہے جس کے اندر نفرت، عناد، گھیراؤ جلاؤ، 'میں چھوڑوں گا نہیں کسی کو اور میں ماردوں گا' کا کلچر ہے۔ اس نے جو سرمایہ کاری کی ہے وہ صاف نظر آرہی ہے۔ شہدا کی یادگاروں کو آگ لگانا کون سی سیاست ہے۔ دفاعی تنصیبات کے اوپر حملہ کرنا، آگ لگانا، اپنے سیاسی مخالفین کے گھروں پر حملہ کرنا ہمارا سیاسی کلچر نہیں رہا۔
وفاقی وزیر داخلہ نے کہا کہ میں پوری ذمہ داری سے مصدقہ اعداد وشمار پیش کر رہا ہوں اور کوئی چیلنج کرنا چاہے تو میں اس چیلنج کو قبول کرنے کو تیار ہوں۔
احتجاج کے اعداد وشمار بیان کرتے ہوئے انہوں نے کہا کہ 9 مئی کو اسلام آباد میں 12 مقامات پر احتجاج ہوا جن میں 600 سے 700 تک لوگ شریک ہوئے۔ پنجاب میں 221 جگہ پر تقریباً 15 ہزار سے 18 ہزار نے احتجاج کیا۔ خیبرپختونخوا میں 126 مقامات پر احتجاج ہوا جہاں 19 ہزار سے 22 ہزار مظاہرین تھے۔
10 مئی کو اسلام آباد میں 11 مقامات، پنجاب میں 33 مقامات اور خیبرپختونخوا میں 85 مقامات پر مظاہرے ہوئے، جہاں بالترتیب 1900، 2200 اور 13 ہزار کے درمیان لوگ شریک تھے۔
11 مئی کو اسلام آباد 4 مقامات، پنجاب میں 12 مقامات اور خیبرپختونخوا میں 39 مقامات پر احتجاج ہوا اور تینوں مقامات میں مجموعی تعداد بالترتیب 515 اسلام آباد، 800 سے ایک ہزار پنجاب اور 5 سے 6 ہزار خیبرپختونخوا میں مظاہرین تھے۔
ان کا کہنا تھا کہ 9 مئی کو پورے پاکستان میں مجموعی طور پر 40 ہزار سے 45 ہزار لوگوں نے احتجاج کیا۔ یہ عوامی ردعمل نہیں تھا۔
وفاقی وزیر داخلہ نے الزام عائد کرتے ہوئے کہا کہ یہ تربیت یافتہ دہشت گرد اور فسادی تھے جن کی تربیت یہ فتنہ پورے ایک سال سے کر رہا تھا۔ ان کی فہرستیں بن رہی تھی۔ ان کو تربیت دی جا رہی تھی۔ان کو پڑھایا، سمجھایا جا رہا تھا۔ ان کو پیٹرول بم بنانے کے طریقے سمجھائے جا رہے تھے۔ جگہ جگہ پر آگ لگائی گئی تھی وہ پیٹرول بم بنانے کے طریقے ہیں۔
ان کا کہنا تھا کہ ان کو غلیلیں دی گئی ہیں اور پنجاب، گلگت بلتستان، کراچی، اسلام آباد اور ہر جگہ مخصوص غلیلیں ہیں۔
انہوں نے مزید کہا کہ القادرٹرسٹ کےعمران خان اوران کی اہلیہ ٹرسٹی ہیں۔ عمران خان نے60ارب روپے لوٹے۔ اس لوٹ مار کا ثبوت ہے۔ وہ کہہ بھی نہیں سکتا کہ میں نے نہیں لوٹے۔ خزانے میں پیسے جمع کرانے کے بجائے ایک ٹائیکون کو دے دیئے، اس کے بدلے 6 سے 7 ارب کی پراپرٹی لی۔ 2ارب فرنٹ مین شہزاد اکبر لےاڑے۔ ایسے شخص کو دیکھ کرچیف جسٹس کہتے ہیں ویلکم۔ ایسے شخص کوسرکاری رہائش میں مہمان بناکر رکھاجاتاہے۔کہاگیا آپ کو دیکھ کربہت خوشی ہوئی۔ اتنا ریلیف تو پاکستان کی آئینی تاریخ میں کسی کو نہیں ملا۔
ان کا کہنا تھا کہ ویلکم کیا تو ہمیں اندازہ ہوگیا تھا کہ کیا ہوگا، بلینکٹ ریلیف کے بعد بھی ہم نے کہا کہ آپ کی سیکیورٹی ہمارے ذمہ ہے۔