یکم نومبر کو ضلعی انتظامیہ مردان کو پاکستان سٹیزن پورٹل پر موصول ہونے والی درخواست میں شہری نے اپنی شناخت کو مخفی رکھتے ہوئے لکھا کہ "جناب وزیراعظم عمران خان کہتے ہیں کہ وطن عزیز پاکستان میں اقلیتوں کے حقوق کی مکمل حفاظت کی جاتی ہے اگر ایسا ہے تو بازار بکٹ گنج مردان میں واقع احمدیوں کی مسجد (جو 17 اگست 1988 میں مسمار کر دی گئی تھی) کیوں تاحال ویران اور حکومتی تحویل میں ہے؟"
پورٹل پر ڈائریکٹر ہیومن رائٹس نے درخواست سیکرٹری اوقاف، مذہبی اور اقلیتی امور کو بھیجی، جنھوں نے مردان کے شہری کی شکایت کے ازالہ کے لئے درخواست ڈپٹی کمشنر کو بھیجی۔ ڈپٹی کمشنر نے اسسٹنٹ کمشنر کو معاملے کی تحقیقات کی ہدایت کی۔ جنھوں نے تحصیلدار، گرداور اور پٹواری سے رپورٹ طلب کی۔
اس سارے عمل کے دوران نامعلوم شخص نے اس درخواست کا فوٹو لیکر سماجی رابطوں کی ویب سائٹ فیس بک پر شیئر کر دیا جس کے بعد اس معاملے پر عوام کی جانب سے شدید ردعمل دیکھنے میں آیا اور سوشل میڈیا پر ضلع انتظامیہ کو تنبیہہ کی گئی کہ وہ مردان میں احمدیوں کی عبادت گاہ کی بحالی سے باز رہیں۔
مردان سے تعلق رکھنے والے سماجی کارکن نے نام ظاہر نہ کرنے کی شرط پر بتایا کہ مردان میں احمدیوں کے 60 کے قریب گھرانے آباد ہیں جو گذشتہ کئی دہائیوں سے مردان میں زندگی گزار رہے ہیں۔ ماضی میں احمدی عقیدہ رکھنے کی بنیاد پر ان پر قانلانہ حملے بھی ہو چکے ہیں جن میں محمود سپورٹس کے مالک بھی شامل ہیں۔ انہوں نے دعویٰ کیا کہ ایسے گھرانے بھی ہیں جو احمدی عقیدے سے تعلق رکھتے ہیں تاہم عوام کے ردعمل کے خوف سے وہ یہ ظاہر نہیں کرتے۔
ڈپٹی کمشنر عابد وزیر نے اس حوالے سے ختم نبوتﷺ کے صوبائی صدر و دیگر ضلعی رہنماوں سمیت میڈیا نماٸندوں کو بلا کر انہیں اس معاملے پر اعتماد میں لیا۔ ضلعی انتظامیہ کی جانب سے جاری کردہ پریس ریلیز کے مطابق ڈپٹی کمشنر عابد وزیر نے کہا کہ عقیدہ ختم نبوتﷺ ہمارے ایمان کاحصہ ہے اور اس کے تحفظ کیلٸے کسی بھی قربانی سے دریغ نہیں کیا جاٸے گا۔
انہوں نے یہ بھی واضح کیا کہ سیٹزن پورٹل ایک خودکار شکایتی سسٹم ہے جس کے حوالے سے کسی قادیانی شہری کی جانب سے مسمارشدہ مرزاڑے کی دوبارہ تعمیر کا مطالبہ کیا گیا تھا۔ تاہم، ہم نے اس شکایت کو ناقابل عمل قرار دیکر مسترد کر دیا ہے۔
عابد وزیر نے عوام سے اپیل کی ہے کہ وہ تحمل و رواداری کا مظاہرہ کریں اور مذہبی معاملات میں افواہوں کے بجاٸے ٹھوس حقاٸق کو مدنظر رکھا کریں۔
ذرائع کے مطابق مردان کے علاقے بکٹ گنج میں احمدیوں کی مذکورہ عبادت گاہ کو عوام کی جانب شدید ردعمل سامنے آنے کے بعد مقامی مسجد کے ایک امام کی قیادت میں نکلنے والے جلوس کے شرکا نے مسمار کر دیا تھا۔ اس کے بعد سے اس مقام پر کوئی تعمیر نہیں کی گئی اور یہ خالی پلاٹ ضلعی انتظامیہ کے کنٹرول میں ہے۔
سماجی تنظیم مردان وال خلق کے چیئرمین اجمل شاہ نے اس حوالے سے گفتگو کرتے ہوئے کہا کہ احمدی گزشتہ کئی دہائیوں سے مردان کے علاقے بکٹ گنج میں مقیم ہیں، انہیں یہاں کسی قسم کا مسئلہ پیش نہیں آیا۔
تاہم پاکستان کے آئین و قانون کے مطابق وہ کہیں بھی عبادت گاہ کے قیام یا اپنے مذہب کے پرچار کے مجاز نہیں ہیں، لہذا عبادت گاہ کی دوبارہ بحالی کا سوال ہی نہیں پیدا ہوتا۔
انہوں نے کہا کہ معاملہ سوشل میڈیا پر سامنے آنے کے بعد عوام کی جانب سے شدید ردعمل دیکھنے میں آیا، جو اس بات کی عکاسی ہے کہ اس قسم کا کوئی بھی اقدام ضلع مردان کے امن و امان کے لئے خطرہ ثابت ہوسکتا ہے۔
تحریک انصاف کے رہنما عادل نواز نے بھی سوشل میڈیا پر اس حوالے سے وضاحت جاری کرتے ہوئے کہا ہے کہ مردان کے عوام مطمئن رہیں، مردان میں کسی کو قادیانیوں کی عبادت گاہ بنانے کی اجازت نہیں دی جائے گی۔
سوشل میڈیا پر انہوں نے دعویٰ کیا ہے کہ مردان کے عوام کے لئے یہ بھی خوشی کی بات ہے کہ مردان میں کوئی قادیانی ہی نہیں ہے تو ان کی عبادتگاہ کی ضرورت کس کو پیش آئی؟ لہذا ایسے حساس اسلامی مسئلوں کو اچھالنے میں اختیاط کرنی چاہیے۔