بہت سے لوگوں کے نزدیک یہ ہتھیار ڈالنے کے مترادف تھا۔ لیکن کیا یہ سب تحریکِ لبیک کو مرکزی دھارے کی سیاست میں لانے اور تحریکِ انصاف کا اتحادی بنانے کے لئے انتہائی مہارت سے چلی گئی ایک چال بھی ہو سکتی ہے؟ وزیر اعظم عمران خان کی بریلوی تحریکِ لبیک کے ساتھ نظریاتی ہم آہنگی کی وجہ سے یہ بالکل ممکن ہے۔ اپریل میں انہوں نے کہا تھا کہ "TLP اور ہمارے مقاصد ایک ہی ہیں لیکن طریقہ کار مختلف ہے"۔ تحریکِ لبیک کے لئے اپنی پسندیدگی کو مزید واضح کرنے کے لئے چند ہی ہفتے قبل وزیر اعظم نے 'توہین کا توڑ کرنے والی' رحمت اللعالمینؐ اتھارٹی بنانے کا اعلان کیا تھا۔ کیا یہ محض اتفاق تھا کہ TLP کا احتجاج لاہور کی رحمت اللعالمینؐ مسجد سے ہوا؟ شاید۔
دوسری خبر میں، افغان طالبان جنہوں نے تحریکِ طالبان پاکستان سے خود کو الگ کرنے سے صاف انکار کر دیا ہے، پاکستان اور TTP کے درمیان ایک امن معاہدہ کروانے میں کامیاب ہو گئے ہیں۔ اس سے اگلا قدم ان کے مرکزی دھارے میں آنے کا ہو سکتا ہے۔ اس کے لئے وزیر اعظم ایک بار پھر فوج کو الزام دینے کی کوشش کر سکتے ہیں۔ اس پر البتہ ان کی ساکھ کا مسئلہ سامنے آ سکتا ہے کیونکہ وہ کبھی طالبان کے مظالم کی مذمت نہیں کرتے۔ ستمبر 2013 میں جب TTP کے پاکستان کے عوام، پولیس اور افواج پر خودکش حملے عروج پر تھے، عمران خان بطور PTI لیڈر کے نواز حکومت سے مطالبہ کرتے رہے کہ ان کے ساتھ جنگ بندی کی جائے اور انہیں ملک میں دفاتر کھولنے کی اجازت دی جائے۔
تحریکِ طالبان پاکستان نے شکرگزاری کا اظہار عمران خان کو اپنی طرف سے حکومت کے ساتھ مذاکرات کرنے والی کمیٹی کا حصہ بننے کے لئے نامزد کر کے کیا۔ ان کے علاوہ اس کمیٹی میں مولوی سمیع الحق مرحوم اور مولوی عبدالعزیز لال مسجد والے بھی شامل تھے۔ پھر چند ہی ہفتوں بعد TTP نے ایک ویڈیو ریلیز کی جس میں انہیں 23 ایف سی اہلکاروں کے سروں کے ساتھ فٹبال کھیلتے ہوئے دیکھا جا سکتا تھا۔ دسمبر 2014 میں اے پی ایس پشاور کا سانحہ پیش آیا۔ جب ایک ماہ بعد عمران خان اور ان کی نئی نویلی دلہن ریحام خان نے سکول کا دورہ کیا تو ان بچوں کے والدین نے ان کا استقبال 'گو عمران گو' کے نعروں سے کیا۔
اب حال یہ ہے کہ دہشتگرد گروہوں پر پابندیوں کی باتیں ہوا میں تحلیل ہو چکی ہیں۔ TLP اور TTP کے بھارتی ایجنٹ ہونے کے الزامات کے ساتھ بھی کچھ ایسا ہی ہوا ہے۔ ان فیصلوں کے نقادوں کو وزیر اعظم عمران خان اور ان کے ہمنوا 'خونی لبرل' کہہ کر رد کر دیتے ہیں۔ یہ اصطلاح جسے وزیر اعظم 20 سال سے استعمال کرتے آ رہے ہیں، اس میں TLP کے مصالحت کاروں کے سربراہ مفتی منیب الرحمان نے تھوڑا سا تبدیل کر کے 'خون کے پیاسے لبرل' کر دیا ہے۔
اس سے زیادہ وضاحت ممکن نہیں۔ جس طرح وزیر اعظم نریندر مودی بھارت کو مسلمانوں اور مسیحیوں سے پاک کرنا چاہتے ہیں، عمران خان پاکستان کو لبرل گند سے پاک کرنا چاہتے ہیں، اور یہ اصطلاح یعنی liberal scum بھی وہ تواتر سے استعمال کرتے ہیں۔ لیکن یہ مخلوق ہے کون، کتنی تعداد میں ہے، کیا چاہتی ہے، ہمارے وزیر اعظم اس سے نفرت کیوں کرتے ہیں، اور پاکستان کے مستقبل پر لبرل ازم یا آزاد خیالی کی شکست سے کیا فرق پڑے گا؟
مجھے بھی لبرل گند کا ایک چھوٹا سا حصہ سمجھیے کیونکہ کوئی بھی شخص جو دہشتگردوں کی اس آؤ بھگت سے نالاں ہے وہ لبرل ہے۔ ہماری کل تعداد کتنی ہے؟ کچھ عرصہ قبل ایک مشہور عالم نے ان خونی لبرلز کی تعداد 300 بتائی تھی۔ ان کا کہنا تھا کہ باقی پاکستانی اچھے مسلمان ہیں۔ لیکن اس وقت جتنی تعداد میں لوگ ان فیصلوں کی مخالفت کر رہے ہیں، لگتا ہے تعداد کئی ہزار گنا زیادہ ہے۔
لبرل کی تعریف کرنا ہی خاصہ مشکل کام تھا، اب خونی لبرل کی نشاندہی کرنا اور بھی مشکل ہو گیا ہے۔ لیکن اگر وسیع تناظر میں دیکھا جائے تو لبرل شخصی آزادیوں اور تمام انسانوں، مرد اور عورت، کی برابری میں یقین رکھتے ہیں۔ یہ لوگ ایک دوسرے سے ہر وقت لڑتے رہتے ہیں لیکن تنوع، اجتماعیت اور ایک ایسی جمہوریت کو مقدم جانتے ہیں جہاں آئین کی حکمرانی ہو۔ ان میں سے کچھ بہت مذہبی ہوتے ہیں، کچھ اس پر اتنا زور نہیں دیتے۔ جس طرح سخت مذہبی لوگوں میں بھی بہت سے لوگ منافق ہوتے ہیں، لبرلز میں بھی بہت سے برے افراد ہوتے ہیں۔
یہ کہنا مشکل ہے کہ عمران خان پاکستان کی ہر برائی کی جڑ لبرلز کو کیوں قرار دیتے ہیں۔ ان لوگوں کی سیاسی نمائندگی سرے سے ہے ہی نہیں۔ ان کے 'موم بتی مافیا' کے ہاتھوں میں کوئی ڈنڈے، بم یا سب مشین گن بھی نہیں ہوتیں جن سے TLP کے کارکنان رسولؐ اللہ کی شان کی حفاظت کرتے ہیں۔ لبرل تو دہشتگردوں کے ہاتھوں قتل ہوئے افراد یا کسی ریپ کے شکار انسان کے لئے بھی اظہارِ یکجہتی کی خاطر بمشکل چند درجن افراد ہی جمع کر پاتے ہیں۔
عمران خان کو ان سے شدید چڑ ہے۔ لیکن کیوں؟ وہ یہ کہانی کئی بار سنا چکے ہیں۔ مغرب میں ان کے رنگین ماضی (جس کے بارے میں وہ زیادہ تفصیل میں نہیں جاتے) کے دوران انہیں ایک ایسی چیز نے لبھا لیا تھا جسے وہ 'لبرل ازم' کا نام دیتے ہیں، لیکن بالآخر مذہب نے انہیں بچا لیا۔ اصل میں ان کا کیس کافی عام ہے۔ بہت سے نوجوان پاکستانی مغرب میں جا کر غلط کاریوں میں پڑ جاتے ہیں اور پاکستان واپس آتے ہیں تو انہیں بہت ملال ہوتا ہے اور پچھتاوے میں وہ شدید رجعت پسند بن جاتے ہیں۔
لبرل ازم کے خلاف عمران خان کی جذباتیت میں ان کے سکول کا بھی کردار ہے جو لاہور کا ایک اعلیٰ طبقے کا سکول ایچیسن کالج ہے جہاں بقول ان کے انہیں کبھی اقبال کی شاعری نہیں پڑھائی گئی۔ وہ اقبال کے شعر بھی نہیں پڑھ پاتے گو کہ وہ انہیں اپنا آئیڈیل قرار دیتے ہیں۔ افسوس کہ انہیں ایسا لگتا ہے کہ لبرل اقبال کو پڑھ اور سمجھ نہیں سکتے۔ حقیقت تو یہ ہے کہ عمران خان خود اردو پڑھنے میں دقت محسوس کرتے ہیں۔ بہت سے لوگوں نے تقریبِ حلف برداری میں انہیں غلطیاں کرتے دیکھا ہے۔ اس کا پرائشچت کرنے کے لئے ہی شاید انہوں نے حال ہی میں تمام سرکاری تقریبات کی میزبانی اردو میں کیے جانے کا فرمان جاری کیا ہے۔
اس سے بھی زیادہ ملول وہ اس بات پر ہیں کہ اپنے وعظ میں قرآنی آیات اور احادیث کا ترجمہ تو سنا سکتے ہیں لیکن یہ عربی میں انہیں نہیں یاد۔ لہٰذا اسلام آباد کے تمام سکولوں میں عربی کو لازمی قرار دے دیا گیا ہے۔ یکساں قومی نصاب، ان کا ایک اور نظریاتی منصوبہ، بھی اسی کا نتیجہ ہے۔ اس نصاب کے تحت ہونے والی تعلیمی 'اصلاحات' نے تمام پاکستانی سکولوں کو مدرسوں کے ساتھ لا کھڑا کیا ہے، اور ان سب میں اب ایک ہی نصاب اور ایک ہی جیسے امتحانات ہوا کریں گے۔ یکساں قومی نصاب کو پڑھ کر بڑے ہونے والے طلبہ TLP اور TTP سے اور بھی دوستانہ مراسم رکھیں گے۔ لیکن بڑی تعداد میں پیدا کیے گئے یہ جہلا مسابقت پر مبنی عالمی معیشت میں کہیں ملازمت حاصل کرنے کے قابل نہیں ہوں گے۔
جہاں ایک طرف ٹی ایل پی اور ٹی ٹی پی عروج حاصل کر رہی ہیں اور دوسری طرف مرکزی دھارے کی سیاسی جماعتیں خود کو لبرل کہتے خوف محسوس کر رہی ہیں، ریاست اور مذہب کو ایک دوسرے سے جوڑنے کا منصوبہ پوری رفتار سے آگے بڑھ رہا ہے۔ پاکستانی غیر مسلم تو سب و شتم کا نشانہ بنتے ہی رہیں گے لیکن فرانسیسی سفیر کو نکالنے کے مطالبے پر اصرار یہ واضح کرتا ہے کہ ٹی ایل پی کے مقاصد مقامی نہیں بلکہ عالمی سطح کے ہیں۔ جہاں تک ٹی ٹی پی کی بات ہے، افغانستان پر ایک نظر ڈال لیجیے آپ کو پتہ چل جائے گا یہ ہمیں کہاں لے جانا چاہتی ہے۔
اہم ترین بات یہ ہے کہ ٹی ایل پی اور ٹی ٹی پی متشدد تنظیمیں ہیں۔ ایک بریلوی ہے اور دوسری دیوبندی۔ دونوں کے ماننے والوں کی بڑی تعداد ہے اور اب افغانستان میں فتح کے بعد ٹی ٹی پی کے ماننے والوں کی تعداد میں تیزی سے اضافہ ہوگا۔ دونوں شریعت کا نظام چاہتی ہیں لیکن دونوں کا تصورِ نظامِ شریعت مختلف ہے۔ کون غالب آئے گا اس کا فیصلہ محض طاقت کے استعمال اور خانہ جنگی سے ہی ہو سکتا ہے۔ عمران خان یقیناً ایک نیا پاکستان چھوڑ جائیں گے، البتہ یہ وہ نیا پاکستان نہیں ہوگا جس کا انہوں نے وعدہ کیا تھا۔
پرویز ہودبھائی کا یہ مضمون ڈان اخبار میں شائع ہوا جسے نیا دور کے قارئین کے لئے اردو میں ترجمہ کیا گیا ہے۔