ارشد شریف کے جسم پر کوئی زخم نہیں تھا، کینیائی ماہر فرانزک نے تشدد کے دعووں کو جھوٹا قرار دیدیا

ارشد شریف کے جسم پر کوئی زخم نہیں تھا، کینیائی ماہر فرانزک نے تشدد کے دعووں کو جھوٹا قرار دیدیا
کینیا میں قتل کیے جانے والے ممتاز پاکستانی صحافی ارشد شریف پر قتل سے قبل تشدد کا معاملہ پہلے ہی شک و شبہات کا شکار تھا تاہم کینیائی ماہر فرانزک کے بیان سامنے آنے کے بعد مزید الجھ گیا ہے۔ ابتدائی بیانات کے مطابق کینیائی پولیس اس بات سے قطعی طور پر انکاری ہے کہا ارشد شریف کو ٹارگٹ کلنگ کا نشانہ بنایا گیا کیونکہ بقول ان کے یہ واقعی شناخت کی غلط فہمی کی باعث پیش آیا تاہم جیسے جیسے تحقیقات آگے بڑھی مزید پہلو سامنے آنے لگے۔ پاکستان میں کئے جانے والے پوسٹمارٹم کی رپورٹ میں ارشد شریف پر تشدد کی تصدیق بھی ہو گئی۔ لیکن اب کینیائی فرانزک ڈاکٹر کا جو بیان سامنے آیا ہے وہ بالکل ہی متصادم ہے۔ فرانزک ماہر ڈاکٹر احمد کلیبی نے دعویٰ کیا ہے کہ پاکستانی صحافی پر تشدد سے متعلق دعوے بے بنیاد اور جھوٹے ہیں۔
ڈاکٹر احمد کلیبی نے حال ہی میں سلسلہ وار ٹوئٹس میں بتایا کہ پاکستانی میڈیا پر ارشد شریف سے متعلق تشدد کی رپورٹ جھوٹی ہے، پوسٹ مارٹم رپورٹ کے مطابق صحافی کو قریب سے گولی نہیں ماری گئی اور یہ کینیا اور پاکستان میں جاری پوسٹ مارٹم رپورٹس میں ثابت ہو چکا ہے۔
انہوں نے ایک اور ٹویٹ میں کینیائی اور پاکستان دونوں رپورٹس کا موازنہ کرتے ہوئے کہا کہ کینیا کے ڈاکٹرز کی رپورٹ بھی وہی ہے جو پمز اسپتال کے 8 ڈاکٹرز نے دی، دونوں ممالک کی رپورٹس میں ایک جیسے زخموں کا ذکر کیا گیا ہے جس میں بتایا گیا ہے کہ سر میں گولی کا زخم ہے جس سے بائیں طرف کی کھوپڑی اور دماغ کو نقصان پہنچا۔ سینے میں گولی کا زخم ہے جو پیچھے سے اوپر کی جانب سے داخل ہوئی۔ سینے میں لگنے والی گولی سے پسلیوں، پھیپھیڑے اور گردن کی ہڈی کو نقصان پہنچا۔
ماہر ڈاکٹر نے بتایاارشد شریف کے جسم پر کوئی زخم نہیں تھا۔ دونوں رپورٹس میں صحافی کی وجہ موت بھی ایک جیسی ہے۔ ان کے سر اور جسم میں لگنے والی گولیاں موت کی وجہ بنیں۔ ان پر آتشی اسلحے سے میڈیم رینج سے فائرنگ کی گئی۔
ڈاکٹر احمد کلیبی نے مزید بتایا کہ پسلیوں اور گردن کی ہڈی کے فریکچر کی وجہ تشدد نہیں بلکہ لگنے والی گولیاں تھیں، ان پر تشدد کی من گھڑت خبریں چلائی جا رہی ہیں، صحافی کے ناخن بھی پوسٹ مارٹم میں ڈی این اے کے لیے کینیا میں نکالے گئے، 2 سے 3 گھنٹے تشدد کی بات بھی درست نہیں۔
ان کا کہنا تھا کہ رپورٹ کے مطابق زخم لگنے اور موت میں 10 سے 30 منٹ کا فرق ہے، پوسٹ مارٹم کرنے والے ڈاکٹر جوہانسن اوڈور نے درمیانی فاصلے سے گولی لگنے کا بتایا، دونوں رپورٹس میں خون زیادہ بہنے کی وجہ سے موت کی تصدیق کی گئی۔
دوسری جانب پاکستان انسٹی ٹیوٹ آف میڈیکل سائنسز (پمز) کے سربراہ ڈاکٹر خالد مسعود نے ارشد شریف کے جسم پر تشدد کے نشانات کی تصدیق کرتے ہوئے بتایا کہ بظاہر لگتا ہے کہ ان پر تشدد ہوا ہے۔ پروفیسر ایس ایچ وقار کی سربراہی میں پوسٹ مارٹم ہوا اور ان کے مطابق جسم پر تشدد کے 12 نشانات ملے ہیں۔
ڈاکٹر خالد مسعود نے مزید بتایا کہ 12 نشانات میں دائیں ہاتھ کی کلائی پر زخموں کے نشان اور چارانگلیوں کے ناخن نہیں تھے جبکہ بائیں ہاتھ کی درمیان والی انگلی پر بھی زخموں کے نشان ہیں۔ یہ تمام چیزیں میڈیکل بورڈ کو بھیج دی گئی ہیں اور فرانزک کیے جانے کے بعد ہی بہتر طریقے سے بتایا جا سکے گا کہ کتنا تشدد ہوا ہے۔

واضح رہے کہ 23 اکتوبر کو نامور پاکستانی صحافی اور اینکر ارشد شریف کو کینیا کے دارالحکومت نیروبی کے قریب فائرنگ کر کے قتل کیا گیا تھا۔ واقعے کے بعد کینیا پولیس کی جانب سے بیان جاری کیا گیا جس میں ان کا کہنا تھا کہ اہلکاروں نے شناخت میں غلط فہمی پر اس گاڑی پر گولیاں چلائیں جس میں ارشد شریف سوار تھے۔
یاد رہے کہ کینیا کی پولیس پر ماورائے عدالت قتل کے الزامات تواتر سے میڈیا میں رپورٹ ہوتے آئے ہیں۔ مختلف ملکوں کے شہریوں کے کینیا کی پولیس کے ہاتھوں مارے جانے کے واقعات پر ہیومن رائٹس واچ اور دیگر بین الاقوامی ادارے مذمت کر چکے ہیں۔