اہم انتخابی حلقوں سے ٹکٹ دے کر خواتین کی نمائندگی بڑھائی جا سکتی ہے

زبیدہ جلال نے بتایا کہ سیاسی پارٹیاں الیکشن میں خواتین کو ان حلقوں میں ٹکٹ دیتی ہیں جہاں ان کی جیت ممکن نہیں ہوتی اور اسی وجہ سے جنرل نشستوں پر اسمبلی میں آنے والی خواتین کی تعداد نہ ہونے کے برابر ہے۔ مینا مجید بھی زبیدہ جلال کی بات سے اتفاق کرتی ہیں اور بتاتی ہیں کہ بلوچستان میں خواتین کے لئے سازگار ماحول نہیں ہے۔

06:12 PM, 13 Nov, 2023

ظریف بلوچ

حالیہ بلدیاتی الیکشن میں مکران میں کونسلر کی جنرل نشست سے کامیابی حاصل کرنے والی خاتون مینا مجید کا تعلق بلوچستان کے سرحدی علاقہ مند سے ہے، وہ پہلی بار الیکشن میں بلا مقابلہ کونسلر منتخب ہو گئیں۔ 2108 میں بلوچستان میں نئی سیاسی جماعت بلوچستان عوامی پارٹی کے وجود میں آنے کے بعد مینا مجید سمیت بلوچستان بھر سے کئی خواتین سیاست میں فعال ہوئی ہیں۔

مینا مجید بتاتی ہیں کہ حالیہ بلدیاتی الیکشن میں پورے مند میں الیکشن نہیں بلکہ سلیکشن ہوئی ہے جبکہ صرف میرے حلقے میں واحد خاتون امیدوار تھی اور الیکشن کے دوران میرے خلاف مختلف ہتھکنڈے استعمال کئے گئے۔ لوگوں کو ڈرا دھمکا کر الیکشن سے دستبردار کروایا گیا، اس کے باوجود عوام کے تعاون سے میں منتخب ہو گئی تھی، جس سے خواتین کو آنے والے انتخابات میں الیکشن لڑنے کا موقع ملے گا۔ مینا مجید کے مطابق حالیہ بلدیاتی الیکشن میں میرے حلقے میں الیکشن سے ایک ہفتے پہلے امیدواروں کو دستبردار کروایا گیا تھا، کیونکہ مخالفین کو شکست کا خوف تھا۔ میرے کونسلر منتخب ہونے سے علاقے کی خواتین میں ایک نیا جوش و جذبہ ابھرا ہے اور وہ بھی سیاست میں حصہ لے رہی ہیں۔

ڈان اخبار کی ایک رپورٹ کے مطابق بلوچستان کے دیہی اور شہری علاقوں سے انتخابات میں مختلف سیاسی جماعتوں اور آزاد حیثیت سے انتخاب لڑنے والے 1584 امیدوار بلامقابلہ منتخب ہوئے ہیں۔

بلوچستان میں خواتین ووٹرز کی تعداد اور نمائندگی کا تناسب

الیکشن کمیشن آف پاکستان کی ویب سائٹ کے مطابق بلوچستان کے 33 اضلاع میں خواتین ووٹرز کی تعداد 21 لاکھ 86 ہزار کے قریب ہے اور بلوچستان کے 65 رکنی ایوان میں خواتین کے لئے 11 مخصوص نشستیں مختص ہیں جبکہ ضلع گوادر میں خواتین رجسٹرڈ ووٹرز کی تعداد 63 ہزار 277 ہے۔ بلوچستان سمیت ملک بھر میں خواتین ووٹرز کا ٹرن آؤٹ کم رہا ہے۔ الیکشن کمیشن کے مطابق 2018 کے عام انتخابات میں بلوچستان کے 51 صوبائی حلقوں میں خواتین کا ٹرن آؤٹ 37.64 فیصد جبکہ ضلع گوادر میں خواتین کا ٹرن آؤٹ 44.88 فیصد تھا جبکہ مردوں کا ٹرن آؤٹ 55.1 فیصد اور مجموعی ٹرن آؤٹ 53.42 رہا۔

2018 کے الیکشن میں حصہ لینے والی خواتین

الیکشن ایکٹ 2017 کے سیکشن 206 کی منظوری کے بعد گذشتہ الیکشن میں جنرل نشستوں پر ماضی کے مقابلے میں خواتین کو بڑی تعداد کو پارٹی ٹکٹ دیے گئے اور مختلف ذرائع سے اکٹھے کئے گئے اعداد و شمار کے مطابق 2018 کے الیکشن میں 171 خواتین امیدواروں نے حصہ لیا جن میں 105 پارٹی ٹکٹ پر اور 66 نے آزاد حیثیت کے تحت الیکشن میں حصہ لیا۔ بلوچستان میں الیکشن لڑنے والی خواتین میں نمایاں نام سابق وفاقی وزیر زبیدہ جلال کیچ کے حلقہ 270، سابق سپیکر بلوچستان اسمبلی راحیلہ درانی حلقہ 265 کوئٹہ، پی بی 13 جعفر آباد سے راحت جمالی اور پی بی 32 کوئٹہ سے نیشنل پارٹی کی مرکزی خواتین سیکرٹری اور سابق رکن بلوچستان اسمبلی یاسمین لہڑی شامل ہیں۔

زبیدہ جلال مند سے تعلق رکھنے والی ایک تعلیم یافتہ خاتون کے ساتھ ساتھ اپنے علاقے میں لڑکیوں کی تعلیم کے حوالے سے کافی کام کر رہی ہیں اور مند میں لڑکیوں کیلئے ایک ہائی سکول بھی انہوں نے بنوایا ہے۔ وہ مشرف دور کی ٹیکنوکریٹ حکومت میں وفاقی وزیر رہ چکی ہیں۔ وہ دوبار الیکشن جیت چکی ہیں۔

سماجی کارکن یاسمین لہڑی غیر سرکاری سماجی اداروں کے ساتھ کام کر چکی ہیں اور 2013 میں نیشنل پارٹی کے ٹکٹ پر خواتین کی مخصوص نشست پر بلوچستان اسمبلی کی رکن منتخب ہو گئی تھیں اور خواتین سیاست میں فعال کردار ادا کر رہی ہیں۔

راحت جمالی کا تعلق جعفر آباد کے جمالی خاندان سے ہے۔ وہ سابق وزیر اعلیٰ بلوچستان جان محمد جمالی کی بہن ہیں اور 2013 کے الیکشن میں پی بی 26 جعفر آباد سے آزاد حیثیت سے الیکشن لڑ کر کامیاب ہوئی تھیں اور نواب ثناء اللہ زہری کی کابینہ میں وزارت محنت و افرادی قوت کا قلمدان انہیں سونپا گیا تھا۔

راحیلہ درانی نے اپنے سیاسی کریئر کا آغاز 2002 میں مسلم لیگ ق سے کیا اور خواتین کی مخصوص نشستوں پر رکن بلوچستان اسمبلی منتخب ہوئیں۔ 2013 میں مسلم لیگ ن کی جانب سے خواتین نشست پر رکن بلوچستان اسمبلی منتخب ہونے کے بعد تاریخ میں پہلی بار خاتون سپیکر بلوچستان اسمبلی منتخب ہو گئیں۔ انہوں نے بلوچستان یونیورسٹی سے ایم اے، ایل ایل بی کی ڈگری حاصل کی۔ وہ سماجی کارکن اور قانون دان ہیں۔

خواتین کی پارلیمنٹ میں پہلی بار نمائندگی

2002 میں جب ملک میں پرویز مشرف کے دور حکومت میں الیکشن ہوئے تو پہلی بار الیکشن ایکٹ 2002 کے تحت پارلیمنٹ میں خواتین کے لئے مخصوص نشستوں کا کوٹہ 17 فیصد رکھا گیا تاکہ پارلیمنٹ میں خواتین کو نمائندگی کا موقع مل سکے اور بعدازاں الیکشن ایکٹ 2017 کے سیکشن 206 کے تحت سیاسی جماعتوں کو جنرل نشستوں پر خواتین کو 5 فیصد ٹکٹ دینے کا پابند کیا گیا۔ اس قانون سازی سے کسی حد تک خواتین کو پارلیمنٹ میں جانے کا موقع میسر آیا۔

کیچ کی تحصیل مند سے تعلق رکھنے والی سابق وفاقی وزیر زبیدہ جلال مکران کی پہلی خاتون ہیں جو الیکشن میں ممبر آف قومی اسمبلی منتخب ہوئی تھیں اور دو بار جنرل الیکشن جبکہ ایک بار خواتین کی مخصوص نشست پر ممبر آف نیشنل اسمبلی رہ چکی ہیں۔ زبیدہ جلال پہلی مرتبہ 2002 میں کیچ کم گوادر کی نشست پر آزاد امیدوار جبکہ دوسری مرتبہ 2013 کے الیکشن میں مسلم لیگ ن کی جانب سے مخصوص نشست اور تیسری بار 2018 کے الیکشن میں بلوچستان عوامی پارٹی کے ٹکٹ پر ممبر آف نیشنل اسمبلی منتخب ہوئی تھیں۔

زبیدہ جلال نے بتایا کہ سیاسی پارٹیاں الیکشن میں خواتین کو ان حلقوں میں ٹکٹ دیتی ہیں جہاں ان کی جیت ممکن نہیں ہوتی اور اسی وجہ سے جنرل نشستوں پر اسمبلی میں آنے والی خواتین کی تعداد نہ ہونے کے برابر ہے۔

مینا مجید بھی زبیدہ جلال کی بات سے اتفاق کرتی ہیں اور بتاتی ہیں کہ بلوچستان میں خواتین کے لئے سازگار ماحول نہیں ہے اور سیاست میں خواتین کو برابری کا درجہ نہ ملنے کی وجہ سے وہ پالیسی سازی میں بھی شریک نہیں ہوتی ہیں۔

گوادر سے تعلق رکھنے والی نیشنل پارٹی کی مرکزی رہنما طاہرہ خورشید کے خیالات کچھ مختلف ہیں۔ وہ کہتی ہے کہ نیشنل پارٹی نے مجھے دو مرتبہ مخصوص نشستوں پر ٹکٹ دی ہے، ہار اور جیت الیکشن کا حصہ ہے۔ وہ اس بات سے اتفاق کرتی ہیں کہ سیاسی پارٹیاں اکثر ٹکٹ اپنے خاندان کی خواتین کو دیتی ہیں جو کہ سیاست میں اتنی فعال نہیں ہوتیں جتنا کہ ایک عام ورکر سیاسی عمل کا حصہ ہوتا ہے۔

صحافی اور سماجی کارکن ثنا اختر کہتی ہیں کہ الیکشن کمیشن نے خواتین کے لئے 5 فیصد نشستیں ضرور مختص کی ہیں مگر آج تک سیاسی پارٹیاں اس پر عمل کرتی نظر نہیں آتی ہیں بلکہ خواتین کو ان علاقوں میں الیکشن لڑوایا جاتا ہے جہاں سیاسی پارٹیوں کا کوئی ووٹ بنک سرے سے موجود نہیں ہوتا۔

اس حوالے سے تحقیق کرنے سے پتہ چلا کہ بلوچستان میں سیاسی پارٹیاں ان حلقوں میں خواتین کو ٹکٹ دیتی ہیں جہاں ان کا ووٹ بنک بہت کم ہوتا ہے اور ان کو معلوم ہوتا ہے کہ ان حلقوں میں جیتنا ناممکن ہے۔ بعض سیاسی مبصرین کے مطابق صرف الیکشن کمیشن کے قانون کو فالو کرنے کے لئے ایسا کیا جاتا ہے۔

سیاسی مبصرین کا کہنا ہے کہ مکران کے صوبائی اسمبلی کے 7 حلقوں سے اب تک کوئی خاتون رکن صوبائی اسمبلی منتخب نہیں ہوئی اور اسی طرح جھالاوان اور لسبیلہ میں خواتین کی جنرل الیکشن میں نامزدگی نہ ہونے کی وجہ سے وہ اس علاقے میں جنرل نشست پر منتخب نہیں ہوئی ہیں۔ البتہ کوئٹہ شہر کے کچھ حلقوں میں خواتین کو ٹکٹ دیا جاتا ہے۔ سیاسی مبصرین کا کہنا ہے کہ خواتین کو 5 فیصد نمائندگی ملنے پر اس وقت مثبت پیش رفت ہو سکتی ہے جب سیاسی جماعتیں مضبوط حلقوں میں خواتین کو جنرل نشستوں پر ٹکٹ دیں۔

زبیدہ جلال کے مطابق جب وہ پہلی بار مشرف دور کی کابینہ میں وفاقی وزیر تھیں تو انہوں نے صوبائی اور قومی اسمبلی سمیت لوکل باڈیز کے الیکشن میں خواتین کے لئے مخصوص نشستوں کی تعداد بڑھانے میں اہم کردار ادا کیا تھا۔ زبیدہ جلال کے مطابق میں اس وقت کابینہ کا حصہ تھی جس میں بلوچستان میں صوبائی اسمبلی اور لوکل باڈیز الیکشن میں خواتین کا کوٹہ بڑھایا گیا تھا۔

قبائلی اور پدرشاہی نظام

بلوچستان چونکہ ایک قبائلی علاقہ ہے اور قبائلی علاقوں میں متواتر نواب، سردار اور جاگیردار پارلمینٹ کا حصہ بنتے چلے آ رہے ہیں جبکہ عام سیاسی کارکن کے لئے پارلیمنٹ تک پہنچنا بہت مشکل ہے۔ اس حوالے سے مینا مجید دو ٹوک الفاظ میں کہتی ہیں کہ قبائلی اور مذہبی نظام میں عورتوں کی سیاست میں انٹری کو ناپسند کیا جاتا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ مضبوط پدرشاہی نظام میں عورتوں کو سیاست میں وہ مواقع دستیاب نہیں ہیں جو کہ معاشرے کے مرد طبقے کو حاصل ہیں۔ ان کے بقول سماج اور خاندان کی جانب سے خواتین کو سیاست میں اخلاقی سپورٹ حاصل نہیں ہوتی جبکہ سیاسی پارٹیاں موروثی سیاست پر یقین رکھتی ہیں۔ ان کے بقول سیاست میں آنے کے بعد خاندان کی سپورٹ سے مجھے آگے جانے کا موقع ملا۔ وہ مزید کہتی ہیں کہ الیکشن میں خاندان کے مرد حضرات فیصلہ کرتے ہیں کہ کس پارٹی کو سپورٹ کرنا ہے اور پھر خواتین پر یہ فیصلے لاگو کئے جاتے ہیں کہ اس سیاسی پارٹی کو ووٹ دینا ہے جس کی وجہ سے ایک جمہوری عمل میں خواتین سے ووٹ کا حق بھی چھین لیا جاتا ہے۔

سماجی کارکن شہناز شبیر کہتی ہیں کہ یہ معاشرہ پدر شاہی معاشرہ ہے۔ ان کے مطابق سب پارٹیاں خواتین کی برابری کا کہتی ہیں مگر عملاً ایسا نہیں ہوتا بلکہ لوکل باڈیز الیکشن سے لے کر سینیٹ تک خواتین کو برابری کا حق نہیں دیا جا رہا۔

طاہرہ خورشید رائے دیتے ہوئے کہتی ہیں کہ خواتین کو سیاست میں فعال کرنے کے لئے ضروری ہے کہ سیاسی پارٹیاں خاندان سے نکل کر اپنے ورکرز کو ٹکٹ دیں۔ بقول ان کے نیشنل پارٹی اس پالیسی پر عمل پیرا ہے۔

زبیدہ جلال نے بتایا کہ میرا مقابلہ قوم پرست حلقوں سے تھا اور مکران میں قوم پرست مضبوط پوزیشن رکھتے ہیں مگر مشرف دور حکومت میں مکران میں لڑکیوں کی تعلیم کے حوالے سے کافی کام کئے تھے اور اسی وجہ سے علاقے کے لوگوں نے مجھ پر اعتماد کر کے الیکشن جیتنے میں مدد کی۔ وہ کہتی ہیں اپنے دور میں میرانی ڈیم اور گوادر سے تربت ہوشاب ہائی وے کی نشاندہی میں نے کی تھی۔ ان کے مطابق گوادر انسٹیٹیوٹ آف ٹیکنالوجی اور مکران میں بجلی کے لئے ایران سے معاہدہ وہ کام ہیں جس سے عام عوام کو براہ راست فائدہ ہوا۔

دور دراز علاقوں میں خواتین ووٹرز کا ٹرن آؤٹ کم ہونے کی وجوہات

الیکشن ایکٹ 2017 کے مطابق اگر کسی پولنگ سٹیشن پر خواتین ووٹرز کا ٹرن آؤٹ 10 فیصد سے کم رہا تو پولنگ کو کالعدم قرار دے کر دوبارہ ووٹنگ کروائی جائے گی۔

طاہرہ خورشید کے مطابق چونکہ بلوچستان دور دراز علاقوں پر مشتمل ہے اور شہری علاقوں میں خواتین انتخابی عمل میں بھرپور شرکت کرتی ہیں جبکہ دیہی علاقوں میں پبلک ٹرانسپورٹ اور دیگر وجوہات کی بنا پر خواتین الیکشن کے عمل میں زیادہ دلچسپی نہیں لیتی ہیں۔ انہوں نے ضلع گوادر کے کچھ دیہی علاقوں یونین کلگ کلانچ اور یونین کونسل سنٹ سر کی مثال دیتے ہوئے کہا کہ ان علاقوں میں روڈ انفراسٹرکچر نہ ہونے کی وجہ سے ٹرن آؤٹ کم ہونے کے امکانات ہیں۔ طاہرہ خورشید کہتی ہیں کہ خواتین کا ٹرن آؤٹ بڑھانے کے لئے ہم براہ راست خواتین سے ملاقاتیں کر رہی ہیں اور ان کو ووٹ کی اہمیت کے بارے میں بتاتی ہیں۔

مینا مجید کے مطابق کم تعلیم یافتہ ہونے کی وجہ سے خواتین ووٹ کی اہمیت سے آگاہ نہیں ہیں اور ہر الیکشن لڑنے والی پارٹی چاہتی ہے کہ وہ زیادہ سے زیادہ خواتین کے ووٹ حاصل کریں کیونکہ ملک کی نصف آبادی خواتین پر مشتمل ہے۔

سابق رکن قومی اسمبلی اور سینیٹر میر منظور گچکی کہتے ہیں کہ الیکشن میں خواتین کا ٹرن آؤٹ بڑھانے کے لئے الیکشن کمیشن سے لے کر تمام سیاسی پارٹیوں کو مل کر کام کرنا ہو گا۔ ان کے مطابق ماضی کے مقابلے میں زیادہ تعداد میں خواتین کی سیاست میں آمد نیک شگون ہے اور تعلیم یافتہ خواتین کی سیاست میں آمد سے خواتین کو ماضی کے مقابلے میں کثیر تعداد میں نمائندگی ملی ہے۔ اس کو مزید بڑھانے کے لئے آئینی اصلاحات لانا ہوں گی۔

الیکشن کمیشن آف پاکستان گوادر آفس کے مطابق 2018 کے الیکشن میں ضلع گوادر میں 120 پولنگ سٹیشن تھے جبکہ ہر پولنگ سٹیشن میں خواتین اور مردوں کے لئے الگ بوتھ قائم کئے گئے تھے۔ جبکہ 2023 کے متوقع الیکشن کے حوالے سے پولنگ سٹیشنوں کی تعداد بڑھانے پر غور کیا جا رہا ہے۔

چیف الیکشن کمشنر کے مطابق مرد اور خواتین ووٹروں کے جینڈر گیپ کو ختم کرنا الیکشن کمیشن کا مشن ہے۔ ان کے مطابق نادرا اور سول سوسائٹی کے ساتھ مل کر الیکشن کمیشن چاروں صوبوں میں خواتین کے شناختی کارڈ اور ووٹ کے اندراج میں مسلسل کوششیں کر رہا ہے اور کمیشن انتخابی عمل میں خواتین کے خلاف ہر قسم کے تشدد کے خلاف ہے۔

دوسری جانب بعض دیہی علاقوں کے لوگ چونکہ شہری علاقوں میں نقل مکانی کر چکے ہیں مگر انتخابی فہرستوں میں ان کا نام پرانے پولنگ سٹیشن میں رجسٹرڈ ہونے کی وجہ سے الیکشن کے دن ان کو دوبارہ اپنے آبائی علاقوں میں جا کر ووٹ کاسٹ کرنے کی مشکلات درپیش ہیں۔ اس حوالے سے خواتین کا کہنا ہے چونکہ سیاسی پارٹیاں اس مسئلے پر کام نہیں کرتی ہیں حالانکہ الیکشن کمیشن آف پاکستان الیکشن سے پہلے عارضی یا مستقل پتے پر ووٹ کی رجسٹریشن کے لئے کچھ عرصہ پہلے تک لوگوں کو آگاہ کرتا رہتا ہے۔

فافن کی ویب سائٹ کے مطابق 2018 کے جنرل الیکشن میں نیشنل اسمبلی کے لئے 46.89 فیصد خواتین رجسٹرڈ ووٹرز نے اپنی رائے دہی کا اظہار کیا۔ مینا مجید کہتی ہیں کہ بلوچستان کے دور دراز علاقوں میں چونکہ خواتین کم تعلیم یافتہ ہیں اسی وجہ سے وہ انتخابی عمل سے ناآشنا ہیں۔

پاکستان پیپلز پارٹی کے رہنما محمد بزنجو نے بتایا کہ پیپلز پارٹی الیکشن میں خواتین کی شرکت کو بڑھانے کے لئے خواتین کے ساتھ اجتماع کر رہی ہے کیونکہ پیپلز پارٹی واحد جماعت ہے جس نے جنرل الیکشن سے لے کر بلدیاتی الیکشن تک خواتین کو ٹکٹ دے کر سیاست میں خواتین کی شرکت کو متوازن کیا ہے۔

خواتین کو پولنگ ڈے پر کیا مشکلات درپیش ہوتی ہیں؟

ثنا اختر کہتی ہیں کہ بلوچستان میں اکثر خواتین کو پولنگ سٹیشن کا پتہ نہیں ہوتا کیونکہ جمہوری عمل میں وہ شوہر یا خاندان کے سربراہ کے کہنے پر ووٹ کاسٹ کرتی ہیں۔ ان کے مطابق وہ اپنی مرضی سے نہیں بلکہ خاندان کے بڑوں کی مرضی کے حق میں ووٹ دینے پر مجبور ہیں۔

اس حوالے سے سماجی کارکن شہناز شبیر کہتی ہیں کہ الیکشن کے روز طاقتور امیدوار اپنے ووٹرز کو سہولیات دیتے ہیں مگر جن امیدواروں کے مالی وسائل محدود ہوں ان کے ووٹرز کے لئے گھر سے پولنگ کے لیے جانا دشوار اور مشکل ہوتا ہے۔ وہ کہتی ہیں کہ خواتین کو اپنے ووٹ ڈھونڈنے میں بھی مشکلات کا سامنا کرنا پڑتا ہے۔

مینا مجید کے مطابق ٹرانسپورٹ نہ ہونے کی وجہ سے خواتین بروقت پولنگ سٹیشنز تک نہیں پہنچ پاتی ہیں جبکہ پولنگ سٹیشنز میں خواتین کے لئے مخصوص جگہ نہ ہونے کی وجہ سے اور مردوں کے ہجوم اور رش کی وجہ سے وہ ووٹ دینے سے گریز کرتی ہیں۔ یاد رہے جہاں خواتین کے الگ پولنگ سٹیشن نہیں ہیں وہاں خواتین کے لئے الگ پولنگ بوتھ بنائے جاتے ہیں۔

پالیسی سازی میں خواتین کا محدود کردار

سابق وفاقی وزیر زبیدہ جلال کہتی ہیں کہ زیادہ تر سیاسی پارٹیاں پالیسی سازی میں خواتین کو شامل نہیں کرتیں حالانکہ تمام پارٹیوں نے اپنے الگ الگ خواتین ونگ بنائے ہوئے ہیں مگر ان کے پاس سی ای سی میں اہم عہدے نہیں ہوتے اس لئے پالیسی سازی میں حصہ نہیں ڈال سکتیں۔

زبیدہ جلال نے انتخابی عمل میں خواتین امیدواروں کی مشکلات بیان کرتے ہوئے کہا کہ سیاسی پارٹیوں کے منظم نیٹ ورک اور ممبران ہوتے ہیں لیکن ایک آزاد امیدوار کی حیثیت سے نوجوان اور علاقے کے ووٹرز کو متحرک کرتے ہوئے مشکلات ہوتی ہیں۔ ان کے مطابق جب میں 2002 میں کیچ کم گوادر سے قومی اسمبلی کی نشست پر الیکشن لڑ رہی تھی تو حلقہ دور دراز علاقوں پر مشتمل وسیع علاقہ تھا۔ وسیع علاقہ ہونے کی وجہ سے اخراجات بڑھ جاتے ہیں، عورت کے لئے کسی علاقے میں دوبارہ جلسہ کرنا، کیونکہ مردوں کے مقابلے میں عورتوں سے الگ ملنا پڑتا ہے۔

مینا مجید نے بتایا کہ میرے سیاست میں آنے سے علاقے کے لوگوں میں یہ جذبہ پیدا ہوا کہ سیاست موروثی سیاست دانوں کی جاگیر نہیں بلکہ ہر طبقے کے لوگ عملی سیاست میں حصہ لے کر کونسلر سے سینیٹر بن سکتے ہیں۔ ان کے مطابق اب علاقے کے نوجوان اپنے نمائندوں سے سوال کرنے کے اہل ہو گئے ہیں اور ہم نے علاقے کے نوجوانوں کو سیاسی پلیٹ فارم مہیا کیا ہے اور خواتین بھی سیاست اور سماجی کاموں میں بڑھ چڑھ کر حصہ لے رہی ہیں۔

شہناز شبیر بھی اس بات سے اتفاق کرتی ہیں۔ ان کے مطابق پالیسی سازی میں خواتین کو برابری کی شراکت داری نہ دینے کی وجہ سے خواتین کے مسائل بڑھ رہے ہیں۔ ان کے خیال میں سیاسی پارٹیاں یہ تصور کرتی ہیں کہ خاتون باہر نہیں جا سکتی اس لئے فیصلہ سازی میں ان کو شراکت نہیں دی جاتی۔ حتی کہ الیکشن میں پارٹی ٹکٹ تقسیم کرنے والی کمیٹیوں میں خواتین کی نمائندگی نہ ہونے کے برابر ہے۔

ثنا اختر کا کہنا ہے کہ جب خواتین کو پورے انتخابی عمل میں برابری نہیں ملتی تو ایسے معاشرے میں پالیسی سازی میں ان کو مواقع دینا ممکن نہیں ہے۔

طاہرہ خورشید کہتی ہیں کہ خواتین کو ٹرولنگ کا بھی سامنا رہتا ہے اور سیاسی پارٹیوں کو چاہئیے کہ وہ خواتین کو برابری کی شراکت داری کے لئے عملی اقدامات کریں۔

زبیدہ جلال کہتی ہیں کہ مشرف دور حکومت میں جب میں وزیر برائے ترقی نسواں تھی تو غیرت کے نام پر قتل کو قتل قرار دے کر تعزیرات کا حصہ بنایا اور سال 2000 میں خواتین کی حیثیت سے متعلق مستقل کمیشن بھی قائم کیا تھا۔

مزیدخبریں