میرے نزدیک تو یہ بہت بری چیز ہے۔ یہی وجہ ہے کہ کوشش کر کے بھی میں وزیراعظم عمران خان کی اقوامِ متحدہ جنرل اسمبلی میں تقریر کی تعریف نہیں کر سکا۔ اس لئے نہیں کہ ان کی تقریر میں کشمیریوں کے جذبات کی درست عکاسی نہیں کی گئی۔ وہ تو بالکل ہوئی۔ مگر ’اسلام فوبیا‘ پر ان کی جانب سے 17 منٹ تقریر پر ان کی حمایت نہیں کی جا سکتی۔ نہ صرف اس لئے کہ پاکستان میں دکانوں پر ’قادیانی داخل نہ ہوں‘ کے نوٹس، اخبارات میں جمعدار کی نوکری کے لئے مسیحی افراد کی درخواستوں کے لئے اشتہارات، ہندو لڑکیوں کو زبردستی اسلام قبول کروانے کے واقعات، اور دیواروں پر ’کافر کافر شیعہ کافر‘ کے نعرے میرے ملک کے وزیر اعظم کے لئے پہلی ترجیح ہونی چاہیے، مغربی معاشرے میں ’اسلام فوبیا‘ نہیں۔ بلکہ اس لئے بھی کہ ان کی تقریر دراصل پاکستان میں ان کے اپنے حمایتیوں کے سامنے خود کو اسلام کا چیمپیئن دکھانے کی ایک اور کوشش تھی۔
وزیراعظم صاحب الیکشن سے قبل بھی ختمِ نبوتؐ کانفرنسوں میں شرکت فرماتے رہے ہیں، درگاہوں پر ماتھے ٹیکتے رہے ہیں، اور نواز شریف کو انتخابی کاغذات میں تبدیلی کا ذمہ دار ٹھہرانے کے ساتھ ساتھ اس عزم کا اظہار بھی کرتے رہے ہیں کہ وہ یہ بات عوام کو بھولنے نہیں دیں گے۔ ان کی جماعت بھی یہی کچھ کرتی رہی ہے۔ تفصیلات کے لئے یہاں کلک کیا جا سکتا ہے۔
الیکشن کے بعد اپنی پہلی تقریر سے لے کر پچھلے ہفتے لنگر کے افتتاح کی تقریب میں کی گئی تقریر تک وہ قوم کو ریاستِ مدینہ بنا کر دینے کی نویدیں سناتے رہے ہیں۔ ان کی تقاریر ہمیشہ سے حضرت ابوبکرؓ کے خلیفہ بننے کے بعد کاروبار نہ کرنے، حضرت عمرؓ کے فرات کے کنارے کتے کے مر جانے پر خود کو اللہ کے آگے جوابدہ سمجھنے جیسے واقعات، اور حضرت علیؑ کے انصاف کی اہمیت پر اقوالِ زریں سے مزیّن رہی ہیں۔ نماز پڑھتے ہوئے تصاویر سوشل میڈیا پر سیکڑوں نہیں تو درجنوں کی تعداد میں ضرور موجود ہیں۔ وہ چار لوگوں کو اسلام قبول کروا چکے ہیں، یہ بھی ہمیں انہی کی زبانی معلوم ہوا تھا۔
اب ایسی صورت میں مولانا فضل الرحمان کے مارچ پر اس وجہ سے پابندی لگانا کہ وہ مذہب کی بنیاد پر سیاست کریں گے، صرف اور صرف اس خوف کی ترجمانی کرتا ہے جو حکومتی وزرا کے دلوں میں موجود ہے۔ وہ جانتے ہیں کہ مذہب کے نام پر سیاست ہوگی تو ان کو بھی اس سب کا سامنا کرنا پڑ سکتا ہے جس کا نواز شریف، خواجہ آصف اور احسن اقبال کو کرنا پڑا تھا۔ جوتا بھی پھینکا جا سکتا ہے، سیاہی بھی پھینکی جا سکتی ہے، گولی بھی چل سکتی ہے اور خدانخواستہ کچھ اور بھی ہو سکتا ہے۔
تاہم، کسی صورت بھی مولانا کی جانب سے مذہب کی بنیاد پر سیاست کی حمایت نہیں کی جا سکتی۔ اس میں کوئی شک ہی نہیں کہ مولانا کے پیروکار ان کے پیروکار ہیں ہی مذہب کی بنیاد پر۔ کیا وہ ہزاروں لوگ جنہیں مولانا دھرنے میں لا کر بٹھائیں گے، وہ 73 کے آئین کی بحالی یا شفاف انتخابات کی خاطر اس ٹھنڈ میں سڑکوں پر بیٹھیں گے؟ یقیناً نہیں۔ یہ بھی حقیقت ہے کہ گذشتہ کئی برسوں سے جہاں وزیر اعظم عمران خان مولانا فضل الرحمان کو ڈیزل کہہ کر چھیڑتے رہے ہیں، وہیں مولانا انہیں ’یہودی ایجنٹ‘ اور ’قادیانی ایجنٹ‘ پکارتے رہے ہیں۔ اور یہ طے ہے کہ اس احتجاج میں بھی اسی قسم کی باتیں دہرائی جائیں گی، اور ایک بار پھر وہی گند پھیلے گا جس کو پھیلانے سے ہم جیسے لوگ خان صاحب کو بھی احتراز برتنے کا مشورہ دیتے تھے۔
لیکن اب سوال یہ ہے کہ ہمیں کس طرف کھڑے ہونا چاہیے۔ ایک طرف ایک مولانا ہیں جو مذہب کے نام پر سیاست کرتے ہوئے ایک انتہائی متنازع الیکشن کے بعد وزیر اعظم کی کرسی پر بیٹھے ہیں اور مدینہ ثانی بنانے کی بات کرتے ہیں، لیکن ان کے یہاں داڑھی کا رواج نہیں۔ دوسری طرف ایک اور مولانا ہیں جن کے یہاں داڑھی کا رواج ہے مگر وہ اسی متنازع الیکشن میں منتخب نہیں ہو سکے تھے، اور اب سسٹم میں سے اپنا حصّہ وصول کرنا چاہتے ہیں۔
میرے خیال میں یہ دو مولاناؤں کا آپسی جھگڑا ہے۔ ہماری نہ پہلے نے سنی ہے، نہ دوسرا سنے گا۔ لہٰذا پاپ کارن کا انتظام کرتے ہیں، اور امید کرتے ہیں کہ اس خرابے میں ہی بہتری کی کوئی تدبیر ہو۔ باقی جو اللّٰہ کو منظور۔