ان دنوں میں زیادہ مصروف نہیں تھا اس لئے جب ٹک ٹاک کھولنے کا موقع ملا تو انگوٹھے سے سکرین اوپر، نیچے سکرول کرتے بہت سی ٹک ٹاک ویڈیوز دیکھیں ۔ (یہ طے ہے کہ اگر ایک دفعہ ٹک ٹاک کھول لی جائے تو یہ لمبے وقت تک آپکو اپنے ساتھ جوڑے رکھتی ہے)۔
سماجیات کے طالب علم ہونے کی حیثیت سے میں نے ٹک ٹاک کو انٹرٹینمنٹ سے ہٹ کر اسے ایک ناقد بن کر دیکھنے اور اس کے اندر موجود مواد کوسماجی معیار سے سمجھنے اور پرکھنے کی کوشش کی ہے۔ اس بات میں کوئی شک نہیں کہ ٹک ٹاک نے نوجوان نسل کو سیاسی ، سماجی اور معاشرتی طور پر نا قابل تلافی نقصان پہنچایا ہے اور ہماری نسل کو غیر سیاسی کر دیا ہے۔ مگر سوشل میڈیا کی دیگر ایپس کی طرح اس ایپ کے بھی فوائد و نقصانات کو سمجھتے ہوئے اسکے تمام مثبت اور منفی پہلووں کا احاطہ کرنا ضروری ہے۔ تاہم اس پر پابندی لگانا حل نہیں کیونکہ فحاشی تو ہمارا معاشرہ کہیں سے بھی نکال سکتا ہے۔ فیس بک، یو ٹیوب ، انسٹا گرام اور سب سے بڑھ کر ٹوئیٹر پر فحش مواد موجود ہے تو صرف ٹک ٹاک ہی نشانہ کیوں ہے؟
ٹک ٹاک کی دنیا ایک مکمل غیر سیاسی دنیا ہے جس میں انٹرٹینمٹ اور خود نمائی کے سواکچھ نہیں۔ ٹک ٹاک کی ایک ویڈیو میں ہر انسان محض 30سے 60 سیکنڈ میں کچھ نیا کرکے مشہورہونے کی کوشش میں ہے۔ ٹک ٹاک پر موجود خواتین وحضرات اپنی کری ایٹیویٹی کو مختلف رنگوں میں پیش کرتے ہیں۔ کچھ اپنے اندر چھپے ٹیلنٹ کو باہر لانے کی کوشش کرتے ہیں، کچھ اپنی دولت و شہرت کو نمایاں کرنے کیلئے اسکا استعمال کرتے ہیں۔ کچھ خواتین و مرد اپنی خوبصورتی دنیا کو دکھانے کیلئے اس ایپ پر اپنی ویڈیوز ڈالتے ہیں۔ مذہبی حلقے نعتیں، قوالیاں اور کلام کا مختصرحصہ نکال کر لگاتے ہیں ۔کچھ افراد روزمرہ کی اشیاء استعمال کرنے اور انہیں ٹھیک کرنے کا نسخہ 30 سیکنڈ کے مختصر دورانیئے کی ویڈیو میں بتانے کی کوشش کرتے ہیں۔ کچھ شعر و شاعری اور گانوں کے مواد کو موسیقی کے مختلف پہلووں کے ساتھ خوبصورت بنا کر پیش کرتے ہیں۔ گویا ہر شخص اپنے اندر چھپے ایک ٹیلنٹ کو عوام کے سامنے پیش کرتا ہے۔ تاہم ہر ٹیلنٹ کی نوعیت مخلتف ہو سکتی ہے۔
میں نے پاکستان میں ٹک ٹاک پر مشہور چند افراد پر تبصرہ کرنے کی کوشش کی ہے۔ اس ایپ پر بہت سے ایسے افراد موجود ہیں جنہوں نے مجھے اپنے مواد اور ٹیلنٹ سے بہت متاثرکیا اور کچھ ایسے بھی ہیں جن کو ہمارے معاشرے کی مجموعی محرومیوں نے بلا وجہ جگہ دے دی۔
ان میں سے ایک کردار پھولو ہے۔ اس ایپ کی سب سے خوبصورت بات پھولو جیسے نوجوانوں کو ایک پلیٹ فارم فراہم کرنا ہے جو غربت کی وجہ سے بڑے شہروں میں آ نہیں سکے ۔ پھولو اور اس جیسے کئی لوگوں کا ٹیلنٹ غربت اور پسماندگی کی نظر ہو جاتا ہے مگرٹک ٹاک نے اس نوجوان کی غریبی کو پس پشت ڈالتے ہوئے اسے پورے پاکستان میں ایک ہیرو بنا دیا۔ پھولو کی سب سے خوبصورت بات یہ ہے کہ اس نے اتنا مشہور ہو جانے کے باوجود اپنی بنیادی شناخت برقرار رکھی کہ وہ ایک غریب اور متوسط طبقے سے تعلق رکھتا ہے اور اس ایپ نے بھی اسے موقع فراہم کرتے نہیں سوچا کہ اسکا تعلق کس طبقے سے ہے۔
پھولو ہی کی طرح ایک نوجوان علی رضا ہے جو مختلف حلیوں کے ساتھ اپنی ویڈیوز بناتا ہے اور حلیے بدلنے کیلئے وہ جن چیزوں کا استعمال کرتا ہے وہ وہی سادہ اور روزمرہ کی چیزیں ہیں۔ علی رضا کی ویڈیوز مزاحیہ ہوتی ہیں اور ان ویڈیوز میں اسکا حلیہ ناظرین کو ہنستے پر مجبور کر دیتا ہے۔
اسی طبقے سے تعلق رکھنے والا ایک اور ٹک ٹاک سٹار جن کی فالوونگ انکی طرح آسمان کی بلندیوں پر رہتی ہے وہ ہے جام صفدر۔ جام صفدر کی ہر چیز کو ہوا میں اڑانے والی ویڈیو شاید بڑے بڑے سائنسدانوں کو حیران کرتی دکھائی دیتی ہے خاص کر تب جب وہ عوام کو لطف اندوز کرنے کیلئے ویڈیو ایڈٹ کرکے موٹر سائیکل سے ٹرک تک آسمانوں میں لے جاتے ہیں۔ انکا حلیہ اور طبیعت ایک سادہ سے انسان کی سی ہے اور یہی سادگی انکی سچائی ہے۔
ٹک ٹاک نے جمی خان جیسے اچھے ڈانسر کو گھر بیٹھے وہ پلیٹ فراہم کیا جو شاید وہ لاہور اور کراچی میں سالوں دھکے کھانے کے بعد حاصل نا کر سکتا۔ خاتون سنگرز کے گانوں اور خاص کر میڈم نور جہاں کے گانوں پر انکا رقص ان گانوں کا حق ادا کرتا ہے۔ اگر ان جیسے نوجوانوں کو مزید نکھارا جائے تو یہ ڈانس کی دنیا میں اپنا مزید نام پیدا کر سکتے ہیں۔
یہ سب وہ حضرات تھے جو میری نظر میں واقعی ٹیلںٹ کی بنیاد پر ہٹ ہوئے۔ اب بات کر لیتے ہیں کچھ ایسے افراد کی جنہیں ٹک ٹاک پر بلا وجہ کی شہرت نصیب ہو گئی۔ ان میں سب سے پہلے علی خان حیدری آبادی ہیں ۔ انکی شہرت کی وجہ انکا چلنے کا سٹائل ہے جو میری اور شاید بہت ساروں کی سمجھ سے باہر ہے۔ ٹک ٹاک پر ان کے جیسا چلنے کے چیلنجز بھی ہو چکے ہیں مگرشاید ایک مختلف انداز میں چلنا کوئی ٹیلنٹ نہیں کیونکہ چال میں ہر انسان ایک دوسرے سے مختلف ہے۔ لہذا ان کی وجہ شہرت کم از کم میری سمجھ سے بالا تر ہے۔
ان کے بعد ایک ایسے شخص جو کھل عام گالیاں دیتے اور انتہائی بوسیدہ اور فحش مواد کی وجہ سے مشہور جس کے وہ بالکل حقدار نہیں تھے وہ ہیں بھولا ریکارڈ، جو دبئی میں ایک گوری کے ساتھ ہم بستری کرنے کے بعد پانچ ہزار درہم والی ویڈیو سے مہشور ہوئے تھے۔ یہ حضرت کوئی زہنی مریض ہیں یا زہنی غلیظ ان کو پسند کیا جانا ہمارے معاشرے کی منافقت ہے۔ جہاں ان جیسا نہیں بلکہ ان سے ملتا عمل قندیل بلوچ نے کیا اور سارا سماج اسکی عزت کے پیچھے پڑ گیا اور قندیل کو جیتے جی فحاشہ کہا گیا اورغیرت کے نام پر قتل کر دیا گیا مگر ان حضرت کی فحش حرکات و سکنات کو مذاق سمجھ کر نا صرف قبول کیا جاتا ہے بلکہ سراہا بھی جاتا ہے۔ اس بات کا فائدہ اٹھاتے ہوئے انہوں نے گالیاں دینا اپنا وطیرہ بنا لیا۔ بھولا ریکارڈ ہمارے معاشرے کے مردوں کو وہ منافق چہرہ ہے جو مرد کو کبھی ایسی حرکات پہ الزام نہیں دیتے مگر عورت کی آزادی پر اسے بے حیا اور فحاشہ جیسے القاب سے نوازا جاتا ہے۔
ٹک ٹاک پر ایک ایسا گروہ بھی موجود ہے جو ہمارے معاشرے کی معاشی محرومیوں کا اظہار ہے یعنی یہ گروہ بڑے بڑے عالی شان گھروں، گاڑیوں اور عیش و عشرت کو نمایاں کرتا ہے۔ جہاں ایک آدمی کے پاس سونے کی گھڑیاں اور انگوٹھیاں، بڑی بڑی گاڑیاں، اسلحہ سے لیس سیکیورٹی گارڈز و دیگرنمود و نمائش عام لوگوں میں احساس محرومی پیدا کرتی ہیں اور انہیں شہہ دیتی ہے کہ یہی وہ زندگی ہے جو انہیں جینی چاہیئے چاہے آپکو کتنوں کا ہی استحصال کیوں نا کرنا پڑے۔ یہ اشرافیہ جن کی ساری دولت غریبوں کا استحصال کر کے بنائی گئی ہے ٹک ٹاک پر اپنی شاہ خرچیاں دکھانے کی کوشش کرتا ہے جو بحثیت معاشرہ ہمارے لئے لمحہ فکریہ ہے۔
ٹک ٹاک پر موجود وہ مواد جس کی وجہ سے اس پر پابندی لگائی گئی وہ چند ایک ویڈیوز ہیں جن میں چند اکاونٹس کی طرف سے براہ راست نہیں بلکہ بالواسطہ فحش ویڈیوز چلائی جاتی ہیں اور جنسی فریسٹریشن کا شکار قوم اس کی طرف متوجہ ہو جاتی ہے اور ایسی ویڈیوز کو بلا وجہ لاکھوں ویوورز بھی مل جاتے ہیں۔
پاکستان جیسی اسلامی ریاستوں نے شروع میں نئی متعارف ہونی ولی تمام ٹیکنالوجیز کو ہمیشہ تسلیم کرنے سے انکار کیا ہے۔ مذہبی رجعت پسندوں نے لاوڈ سپیکر، ریڈیو، ٹی وی، وی سی آر، ڈش اینٹینا، کیبل سمیت تمام ڈیجیٹلائزیشن کے سارے عمل سے انکار کیا تاہم وقت نے ہمیشہ انہیں شکست دی اور مجبور ہوکر انہیں ان تمام ٹیکنالوجیز سے خود مستفید ہونا پڑا۔
ٹک ٹاک بھی ایسی ہی ایپ ہے جسے تسلیم کرنے میں ہمیں مسائل درپیش ہیں۔ خاص کر شہری اور پڑھا لکھا طبقہ اسے پسند نہیں کرتا اسی لئے یہ ایپ غیر سنجیدہ، غیر سیاسی اور غیر تربیت یافتہ لوگوں کی آماجگاہ بن کر رہ گئی ہے۔ ٹک ٹاک عام عوام تک اپنا پیغام پہنچانے کیلئے سب سے آسان اور براہ راست ذریعہ ہے۔ ٹوئیٹر، فیس بک، انسٹا گرام اور دیگر سوشل میڈیا پلیٹ فارمز کی طرح ٹک ٹاک کو بھی معاشرتی شعور پھیلانے اور سیاسی و سماجی مکالمہ شروع کرنے کےلئے استعمال کیا جاسکتا ہے۔ اگر ٹک ٹاک صرف انٹر ٹینمنٹ کیلئے استعمال کیا جاتا رہا اوراسے انہی غیر سنجیدہ حلقوں کے حوالے رکھا گیا تو ہمارا معاشرہ مجموعی طور پر انحطاط کا شکار ہو سکتا ہے تاہم اسے حقیقت مانتے ہوئے عام لوگوں تک ترقی پسند سوچ اور بات پہنچانے کا ذریعہ سمجھ لیں تو میں یقین سے کہہ سکتا ہوں کہ عام عوام تک پہنچنے کیلئے اس سے آسان کوئی اور پلیٹ فارم نہیں ہو سکتا۔