خیبر پختونخوا انوائرمنٹل پروٹیکشن ایجنسی (ای پی اے) کے مطابق صوبہ بھر میں 800 خشت بھٹہ ہیں جس میں صرف پشاور کے دیہات میں 300 ہیں خشت کی لاگت میں کمی لانے کے لئے مالکان آگ کے لئے کم معیار کوئلہ، استعمال شدہ تیل، پرانا ربڑ اور پلاسٹک مٹیریل کا استعمال کرتے ہیں۔ جس کی وجہ سے فضاء میں زیریلی آلودگی میں ہر گزرتے روز کےساتھ اضافہ دیکھنے کو ملتا ہے۔ کم ترین معیاری اشیاء کے استعمال کے ساتھ آلودگی میں تیزی کے ساتھ اضافہ ہوتا ہے جس سے مقامی لوگوں کی زندگیوں پر اثرات مرتب ہو رہے ہیں۔ پشاور شہر میں ہر روز زرعی زمین پرغیر قانونی ہاؤسنگ سوسائٹیز کی تعمیر اور پشاور بس ریپڈ ٹرانزٹ روٹ بنانے میں لاکھوں ٹن سیمٹ اور سریا کے استعمال نے پشاور شہر کی ماحولیاتی درجہ حرارت میں اضافہ کیا ہے۔
پشاور کے مضافات سربند، متنی اور خاص کر اُرمڑ کی مٹی کوالٹی خشت کے لئے بہت مشہور ہے۔ چترل سے ڈی آئی خان تک ہر ضلع میں ان علاقوں کا خشت موجود ہوتا ہے ان بھٹوں میں کام کرنے والے سب سےزیادہ زہریلی دھویئں کے نشانے پر ہوتے ہیں ایک تو بھٹوں میں کام کرنے والے مزدور کو صحت کے حوالے سے کوئی آگاہی ہوتی ہے اور نہ مالک کی طرف سے سیفٹی کٹس مہیا کئے جاتے ہیں جس کی وجہ ہر سال سینکڑوں کی تعداد میں مزدور پھیپڑوں کی مرض میں مبتلا ہوتے ہیں۔ سلفر ڈاکسائیڈ کا نارمل سائز 80 پی پی ایم ہوتا ہے جبکہ خشت بھٹہ اور مضافات میں اس کا سائز 14000 سے 27000 پی پی ایم ہوتاہے۔ ڈاکٹر مختیار زمان پلمونولوجسٹ نے کہا اینٹ بھٹہ کا براہ راست اثر انسان، میوہ جات اور سبزیوں پر ہوتا ہے چونکہ اینٹ سازی میں کام کرنے والے پھیپڑوں، سمیت آنکھوں کی بیماری لاحق ہوتی ہے ۔
ظاہر گل جو کہ گزشتہ چار سال سے خشت بھٹہ میں کام کرتے ہیں، نے پلاسٹک اور ربڑ اشیاء کی طرف اشارہ کرتے ہوئے کہا کہ بھٹہ میں ایندھن کے لئے استعمال ہونے والی یہ چیزیں شہر میں وافر مقدارمیں موجود ہیں جس کی وجہ سے خشت کو متعلقہ گرمائش ملتی ہے۔ انھوں نے کہا کہ ہم تو چیزوں کو نہیں دیکھتے۔ بس ہر اس چیز کو ایندھن کے طور پر استعمال کرتے ہیں جو آگ پکڑتی ہو۔ ظاہر گل نے کہا کہ ہم چند مزدور دن میں تیس سے چالیس ہزار تک خشت تیار کرتے ہیں۔
پاکستان میں ہر سال 46 بلین خشت تیار ہوتے ہیں کلائمیٹ ہیلتھ ریسرچ نیٹ ورک اس تعداد کے ساتھ پاکستان جنوبی ایشاء میں بھارت کے بعد زیادہ خشت تیارکرنے والا ملک ہے اور 41 فیصد کوئلہ خشت کی تیار سازی میں صرف ہوتاہے جس سے بدترین آلودگی پھیلتی ہے۔
دوسری جانب خیبر پختونخوا انوائرمنٹل پروٹیکشن ایکٹ 2014 ربڑ اور غیر معیاری چیزوں کا خشت بھٹہ میں جلانے کی ممانعت کرتاہے۔ ایکٹ کہتا ہے کہ کسی فرد کو اجازت نہیں کہ ماحولیاتی آلودگی پھیلائے۔ کلائمیٹ اور کلین ائیر کوالیشن کے مطابق دنیا بھر میں 20 فیصد بلیک کاربن کا اخراج خشت بھٹہ اور آئرن صنعت کی وجہ سے ہوتا ہے بلیک کاربن ماحولیاتی آلودگی کے علاوہ حدت میں بھی اضافہ کرتا ہے جس کی وجہ بالائی علاقوں میں گلئیشیر کسی بھی وقت پگھل سکتا ہے ۔ واضح رہے کہ ہر سال پاکستانی ضلع چترال میں گلیشیر کے پگھلنے کی وجہ سے مالی اور جانی نقصانات ہوتے ہیں اور اسی سال بھی اپر چترال کے ریشون گاؤں میں کئی درجن مکانات اور دکانات کو نقصان پہنچا تھا۔
خیبر پختونخوا اور صوبائی مرکزی شہر پشاور میں ماحولیاتی آلودگی کم کرنے کے لئے سپریم کورٹ کی ہدایات کی روشنی میں ای پی اے نے خشت بھٹہ مالکان کو نئی زگ زیگ ٹیکنالوجی اپنانے کے لئے کے لئے احکامات جاری کئے ہیں حکومت ماڈرن بھٹہ بنانے کے لئے اینٹ سازوں کو بھی تربیت دے گی ۔ روایتی اور زگ زیگ ٹیکنالوجی میں یہی فرق ہے کہ روایتی چمنی میں دھواں جلدی باہر نکلتا ہے جس کی وجہ سے آلودگی اور درجہ حرارت میں کمی نہیں ہوتی جب کہ زگ زیگ میں دھواں مختلف مراحل میں سے گزرتا ہے اور آخر میں بہت کم ہوا ماحول کو گرم اور آلودہ کرتا ہے ۔
خشت بھٹہ یونین کے جنرل سیکرٹری آئین خان نے کہا کہ ہم خود بھی چاہتے ہیں کہ ماحولیاتی آلودگی کو کم کریں اور اس لئے حکومت کے ساتھ بھر پور تعاون کررہے ہیں اور ربڑ کو جلانے والوں کے خلاف اتھارٹی کے ساتھ ہوتےہیں۔ آئین خان نے کہا کہ جدید ٹیکنالوجی کو اپنانے کے لئے وقت کے ساتھ تربیت یافتہ مزدور بھی درکار ہیں ۔
ماہرین کے مطابق خشت بھٹہ سے سلفر آکسائیڈ، نائٹروجن ڈاکسائیڈ، کاربن مونا آکسائیڈ، کاربن ڈاکسائیڈ اور زہریلی ذرات نکلتے ہیں جو ماحولیاتی آلودگی سمیت انسانی صحت کے لئے بہت زیادہ مضر ہیں۔ ڈپٹی ڈائریکٹر کلائمیٹ چینج سیل، ای پی اے افسر خان کا کہنا ہے کہ اگر خشت بھٹہ مالکان جدید ٹیکنالوجی کو اپنائے تو ایک طرف تو کوئلہ کے استعمال میں 50 سے 65 فیصد تک کمی واقع ہو گی اور بہت ہی کم ایندھن سے زیادہ خشت تیار ہو سکے گی۔