ایک ایسا ہی معاملہ ملک کے وفاق میں جاری ہے۔ ڈی جی آئی ایس آئی کی تقرری کے معاملے پر وزیر اعظم اور آرمی چیف کے درمیان میچ پھنس گیا ہے۔ تقرریوں کے بعد ڈی جی آئی ایس آئی کے عہدے پر نئی تقرری کی سمری پر وزیر اعظم نے دستخط نہیں کیے اور معاملہ کھٹائی کا شکار ہے۔
دلچسپ صورتحال یہ ہے کہ میڈیا سکرینوں پر اس کی کوئی سن گن نہیں لیکن سوشل میڈیا پر سب کچھ کہیں اشاروں اشاروں میں اور کہیں کھل کر کہا اور سنا جا رہا ہے۔ اس کے بعد حضرت خالد بن ولید کی حضرت عمر کے ہاتھوں معزولی کی مثال دے کر وزیر اعظم نے بحث تیز تر کر دی۔
گذشتہ رات بھی ایک طویل میٹنگ کی اطلاعات ٹویٹر پر آتی رہیں۔ پھر اس میں بننے والی داستان بھی سطر در سطر زینت سماعت عوام بنتی رہیں۔ لیکن اس کے بعد پھر ایک دقیق خاموشی۔۔۔ تاہم، اب وزیر اطلاعات بولے ہیں اور کیا بولے ہیں۔
وفاقی وزیر اطلاعات و نشریات فواد چوہدری نے کہا کہ ڈی جی آئی ایس آئی کی تعیناتی میں اتھارٹی وزیر اعظم ہیں۔
کابینہ اجلاس کے بعد میڈیا بریفنگ کے دوران فواد چوہدری نے کہا کہ پاکستان کی ملٹری اور سول قیادت کے درمیان بڑے اچھے تعلقات ہیں۔ وہ یہ بھی تسلیم کر گئے کہ گذشتہ رات وزیراعظم عمران خان اور آرمی چیف کے درمیان طویل نشست ہوئی، یہ ملاقات خوشگوار ماحول میں ہوئی، وزیر اعظم آفس اور آرمی چیف کوئی ایسا قدم نہیں اٹھائیں گے جس سے فوج اور ملک کے وقار میں کمی ہو۔
اب یہاں پر فواد چوہدری کے بیان کی روشنی میں کچھ سوالات سامنے رکھنے کی جسارت ہے۔ وہ کہتے ہیں کہ وزیر اعظم اور آرمی چیف کوئی ایسا قدم نہیں اٹھائیں گے کہ جس سے ملک کے وقار کو نقصان پہنچے۔ سوال یہ ہے کہ اب افواج پاکستان اور حکومت میں ٹرانزیکشن کے درمیان ملک کے وزیر اطلاعات بتائیں گے کہ ملکی وقار کیا ہوتا ہے؟ یہ ڈومین تو ہمیشہ سے پاک فوج کی ہی رہی ہے۔ اگلی بات یہ کہ کیا اب وزیر اطلاعات بتائیں گے کہ قانونی استحقاق کیا ہوتا ہے اور وزیر اعظم کا اسے استعمال کرنا کتنا جائز ہے؟ ابھی حال ہی میں فواد چوہدری کی مخالف پارٹی کے وزیر اطلاعات پرویز رشید نے بھی ایسی ہی ایک کوشش ڈان لیکس کے پاس کی تھی۔ سیدھے گھر کو گئے۔ اور کیا قسمت دوبارہ سے ستم گروں کو وہیں پر لائی ہے جہاں سے ان کا کھیل شروع ہوا تھا۔ جس میں سویلین حکومت اور فوج کی قیادت اختلاف کے ساتھ آمنے سامنے آ گئے تھے۔ اور صورتحال کو عمران خان نے اپنے فائدے کے لئے دبا کر استعمال کیا تھا۔
اب پھر سے وہی صورتحال ہے بس کردار بدل گئے ہیں۔ شکاری کی بندوق وہی ہے جب کہ شکار تبدیل ہے۔ تب بھی تحقیقاتی کمیٹی کی رپورٹ کے بارے میں رجیکٹڈ لکھا ہوا آیا تھا۔ لیکن اب ایسا تو نہیں لگتا۔ یوں محسوس ہوتا ہے کہ کچھ نہ کچھ جلد ہوگا۔ وگرنہ فواد چوہدری کو گذشتہ رات کی میٹنگ میں موڈ کے خوشگوار ہونے پر بات نہ کرتے۔ اور نہ ہی انہیں وزیر اعظم کی اتھارٹی کے بارے یقین دہانی کروانے کی ضرورت پڑتی۔ ڈان لیکس کے حوالے سے ریجیکٹڈ کی ٹویٹ کے بعد بھی ن لیگی حکومت نے قوم کو یہ باور کروانے کی کوشش کی تھی کہ سب اختیار وزیر اعظم کے ہیں اور پیج ایک ہی ہے۔
ڈان لیکس کے زمانے کی طرح ہی اب بھی اپوزیشن نے اچانک سے نیا ترنگ پکڑنا شروع کر دیا ہے جس میں اسلام آباد مارچ کی صدائیں بھی ہیں۔ جو کچھ ہو رہا ہے اور جس انداز میں ہو رہا ہے اس میں تو نیا دور کے پروگرام خبر سے آگے ادا کیا گیا مرتضیٰ سولنگی کا یہ جملہ ہی یاد آتا ہے کہ وزیر اعظم عمران خان اپنی مدت پوری نہیں کر سکیں گے۔ بس وزیر اعظم عمران خان کا پاناما کیا ہوگا اس کا فیصلہ شاید ابھی ہونا باقی ہے؟
دوسری جانب یہ بحث بھی جاری ہے کہ وزیر اعظم کا استحقاق کیا ہے؟ آیا انہیں ڈی جی آئی ایس آئی کے معاملے پر آرمی چیف کی بھیجی ہوئی سمری پر بلا چوں چرا دستخط کر دینے چاہیے تھے یا انہوں نے اس حوالے سے اپنی رائے پر سختی سے قائم رہ کر ایک بالکل درست فیصلہ کیا ہے کیونکہ یہ آئینی طور پر ان کا حق ہے کہ وہ اس عہدے پر کس کو تعینات کرنا چاہتے ہیں۔ اس حوالے سے لوگ محترمہ بینظیر بھٹو کی مثال بھی دے رہے ہیں جنہوں نے ایک ریٹائرڈ فوجی افسر کو ہی آئی ایس آئی کا سربراہ مقرر کر دیا تھا۔ اس خیال کے حامیوں میں ایسے لوگ بھی شامل ہیں جو عمومی طور پر وزیر اعظم کے حامی نہیں سمجھے جاتے۔ ان کا ماننا ہے کہ یہ سویلین سپریمیسی یعنی عوامی حاکمیت کا معاملہ ہے۔
دوسری جانب وہ لوگ ہیں جو محض اس ایک معاملے پر وزیر اعظم کی جانب سے اسٹیبلشمنٹ کے سامنے ڈٹ جانے کو اس قابل نہیں سمجھتے کہ جس کی بنیاد پر انہیں عوامی حاکمیت کی جنگ کا ایک شہسوار مان لیا جائے۔ ان کا کہنا ہے کہ پچھلے تین سالوں میں وزیر اعظم کے تمام اقدامات اور ان کی بارہا کی گئی عوامی تقاریر سے یہ واضح ہے کہ وہ جمہوریت پر یقین نہیں رکھتے اور اس تبادلے یا تقرری کے خلاف بھی اسی لئے ہیں کہ انہیں اس موجودہ صورتحال میں اپوزیشن کو دبانے کے لئے ایف آئی اے اور نیب کو استعمال کرنے کے ساتھ ساتھ آئینی ترامیم پیش کرنے میں بھی بڑی آسانی رہی ہے۔ اور تو اور، ان کا اعتماد کا ووٹ بھی مارچ 2021 میں خطرے میں پڑ گیا تھا اگر بروقت کچھ اراکین کو قومی اسمبلی نہ پہنچایا جاتا۔
لہٰذا سوال یہ اٹھایا جا رہا ہے کہ وزیر اعظم عوامی حاکمیت کے لئے اٹھ کھڑے ہوئے ہیں یا پھر اپنی انتقامی سیاست کو بدستور چلاتے رہنے کی خواہش ان کو اس آزمائش کی گھڑی میں ثابت قدم رکھے ہوئے ہے۔ سینیئر صحافی ضرار کھوڑو نے اسی تناظر میں شاید یہ ٹوئیٹ کی ہے کہ اگر ہم عوامی حاکمیت کے لئے جدوجہد کر رہے ہیں تو یہ منتخب حکمران کی آمرانہ سوچ کا ساتھ دینے پر بھی ہمیں مجبور کر سکتا ہے جب کہ سلطانی جمہور ایک بالکل مختلف نظریہ ہے جس میں اولین حیثیت اس عظیم تر مقصد کی ہوتی ہے جس میں مفادات شخصی نہیں بلکہ جمہور کے ہوتے ہیں۔ کیا محض آئینی استحقاق کی بنیاد پر جمہوری آزادیوں کو سلب کرنے کی اجازت دی جا سکتی ہے یا ایسے اقدامات کرنے کی جو جمہوری آزادیوں کو سلب کرنے میں مددگار ثابت ہوں اس بنیاد پر حمایت حاصل کر سکتے ہیں کہ یہ حکمران کی خواہش ہے؟