خیال رہے کہ گزشتہ دنوں پولیس کے ہاتھ ایک ایسی مبینہ آڈیو ریکارڈنگ آئی تھی جس میں ٹک ٹاکر عائشہ اور اس کا ساتھی ریمبو حراست میں لئے گئے ملزموں سے پیسے بٹورنے کی بات کر رہے ہیں۔ 25 سکینڈ کی اس گفتگو نے سارے کیس کا رخ ہی موڑ دیا ہے۔ پولیس حکام نے اس آڈیو کا فرانزک کرکے اسے کیس میں شامل کرنے کا فیصلہ کیا ہے۔
اب اقرار الحسن نے بھی یہ آڈیو سننے کے بعد اپنا موقف تبدیل کر لیا ہے۔ انہوں نے اپنے ایک ویڈیو بیان میں عائشہ اکرم کی حمایت کرنے پر معافی مانگتے ہوئے کہا ہے کہ میں عوام سے اپیل کرتا ہوں کہ وہ میرا ماضی دیکھتے ہوئے، اس کے صدقے مجھے معاف کر دیں۔
انہوں نے اپنے بیان میں کہا کہ عائشہ اکرم کا میں نے اس لئے ساتھ دیا تھا کیونکہ اس کیساتھ بدتہذیبی اور بدتمیزی کی گئی تھی لیکن حالیہ آڈیو میں یہ انکشاف ہوا ہے کہ وہ تو گرفتار ملزمان سے پیسے بٹورنے کی منصوبہ بندی کر رہے ہیں۔ مجھے اندازہ ہی نہیں تھا کہ میں کسی ایسی لڑکی کی حمایت کر رہا ہوں جو اب خود ظالم بن رہی ہے۔
ان کا کہنا تھا کہ عائشہ اکرم کی حمایت کرنے پر پوری قوم نے مجھے سمجھایا، میرے اہلخانہ نے مجھے روکا لیکن مجھے لگا کہ مظلوم کا ساتھ دینا چاہیے، یہی سوچ کر میں اس کو انصاف دلوانے کیلئے ڈٹا رہا لیکن اب سارا معاملہ ہی الٹ کر کرپشن میں داخل ہو چکا ہے۔
انہوں نے کہا کہ اس واقعے کو رپورٹ کرنے پر میں عوام سے معافی مانگتا ہوں، اللہ تعالیٰ جانتے ہیں کہ میرا اس معاملے میں کوئی قصور نہیں تھا۔
انسٹاگرام پر جاری اپنے معافی نامے میں اقرار الحسن نے لکھا کہ میں عائشہ اکرم کے ساتھ کھڑا ہونے پر معذرت خواہ ہوں۔ میں نے ایک ایسی لڑکی کو بہن کہا اور اُس کے سر پر ہاتھ رکھا جس نے خود کو سرِعام ننگا کرنے والوں کے ساتھ ہی سودے بازی شروع کر دی، ایسا تو جسم فروش عورتیں بھی نہیں کرتیں۔
اقرارالحسن ان کا کہنا تھا کہ میں آج بھی کہتا ہوں کہ اُس کے ساتھ جو ہوا وہ غلط تھا لیکن اس نے اپنی عزت کی قیمت لگا کر اس سے بھی زیادہ غلط کیا۔ اللہ کی وحدانیت کی قسم اس معاملے میں میری کوئی ضد یا انا نہیں تھی، لوگوں کی گالیاں کھا کر بھی میں نے صرف اس لئے اس کا ساتھ دیا کیونکہ میں صدقِ دل سے یہ سوچتا تھا کہ اس کا کردار اللہ اور اس کا معاملہ ہے، لیکن اب تو وہ جھوٹے سچے ملزموں سے پانچ پانچ لاکھ لے کر, اُن سے ڈیل کر کے اُن پر ظلم کرنے جا رہی تھی یہ جانتے ہوئے بھی کہ گرفتار ملزمان میں سے اکثریت غریب لوگوں کی ہے۔
انہوں نے کہا کہ اگر آپ سمجھتے ہیں کہ اللہ نے مجھ سے کبھی بھی کوئی اچھا کام لیا ہے تو اس کام کے صدقے مجھے معاف کر دیں۔ مجھ سے ظالم اور مظلوم میں فرق کرنے میں بڑی بھول ہوئی۔
;
اس سے قبل اپنی ایک ٹویٹ میں اقرار الحسن نے لکھا تھا کہ عائشہ اکرم مینار پاکستان خود گئی یا اسے کوئی وہاں لے کر گیا۔ وہ پرہیز گار تھی یا خدانخواستہ طوائف، اُس کے کپڑے پھاڑنے کا حق کسی کو نہیں تھا۔ صرف اس ایک بات پر ہم سب کو اُس کے ساتھ کھڑا ہونا چاہیے تھا۔ ہمیں ہر اُس عورت کا ساتھ دینا ہے جس کے ساتھ بدتہذیبی کی جائے۔
خیال رہے کہ پاکستان کے یوم آزادی کے روز عائشہ اکرم نامی یہ خاتون اپنے ساتھیوں کے ہمراہ مینار پاکستان ٹک ٹاک ویڈیوز بنانے پہنچی تھیں۔ اس وقت وہاں سینکڑوں کی تعداد میں موجود لوگوں نے جہالت کا ایسا شرمناک مظاہرہ کیا جس سے دنیا بھر میں پاکستان کی بدنامی ہوئی۔
گریٹر اقبال پارک میں موجود لوگ گھنٹوں عائشہ اکرم کو ہراساں کرتے رہے، حتیٰ کہ اپنی ہوس ٹھنڈی کرنے کیلئے اس کے کپڑے تک پھاڑ دیئے ۔ موقع پر موجود کچھ افراد نے اس دلخراش واقعہ کی ویڈیو بنا کر سوشل میڈیا پر اپ لوڈ کی جو پوری دنیا میں جنگل کی آگ کی طرح پھیل گئی۔
اعلیٰ حکام کی جانب سے نوٹس لینے پر پولیس بھی حرکت میں آئی اور سی سی ٹی وی کی مدد سے تقریباً 400 افراد کو گرفتار کرکے تھانوں میں بند کر دیا۔ ان میں سے عائشہ اکرم نے 6 ملزموں کو شناخت کیا۔
لاہور میں سیکیورٹی کی صورتحال پر تنقید شروع ہوئی تو پنجاب حکومت نے اپنے سر سے بوجھ اتارتے ہوئے ڈی آئی جی آپریشنز، ایس ایس پی آپریشنز، متعلقہ ڈی ایس پی اور ایس ایچ او کو غفلت برتنے پر معطل کر دیا۔
یہ بات بھی ذہن میں رہے کہ جب سے ہراسانی کا یہ معاملہ سامنے آیا متاثرہ خاتون کیخلاف سوشل میڈیا پر کمپین شروع کر دی گئی ہے جس میں اسے مورد الزام ٹھہراتے ہوئے اس کی ذاتی زندگی پر باتیں کی جا رہی ہیں۔ اس کیساتھ ساتھ خاتون کی ماضی میں بنائی گئی کچھ ویڈیوز اور تصاویر لیک ہونے کا سلسلہ بھی شروع ہو چکا ہے۔
تجزیہ نگاروں کا کہنا ہے کہ پولیس کو چاہیے تھا کہ وہ ملزمان کیخلاف ٹھوس شواہد حاصل کرکے انھیں عدالت سے سزائیں دلوانے کا بندوبست کرتی لیکن عائشہ اکرم کے ہی ماضی کو کریدنے کی کوشش کی جا رہی ہے۔