جبری مذہب تبدیلی سے متعلق قانون سازی، کمیٹی میٹنگ میں مسلمان اور اقلیتی ارکان میں شدید تلخ کلامی

12:39 PM, 13 Oct, 2021

نیا دور
اسلام آباد : پارلیمان کی خصوصی کمیٹی برائے تحفظ اقلیت میں جبری مذہب تبدیلی سے متعلق قانون سازی پر بحث کے دوران کمیٹی میٹنگ میں مسلمان اور اقلیتی ارکان میں شدید تلخ کلامی ہوئی۔

تفصیلات کے مطابق بریفنگ دیتے ہوئے وزیر مذہبی امور پیر نور الحق قادری نے کہا کہ جبری مذہبی تبدیلی کے حوالے سے قانون سازی کرنے کے لئے ماحول ساز گار نہیں اور ہم اس پر قانون سازی کریں گے تو ملک میں امن و امان کی صورتحال خراب ہو جائے گی اور اس کے ساتھ ساتھ ملک میں بسنے والی اقلیتوں کے خلاف مزید مسائل جنم لینگے اور وہ مزید غیر محفوظ ہوجائیں گے۔

وزیر مذہبی امور نے مزید کہا کہ صوبائی حکومتیں، سپیکر قومی اسمبلی اور وزیر اعظم آفس جبری مذہبی تبدیلیوں کے حوالے سے کوئی اور اقدامات کریں لیکن قانون سازی کرنے کا ماحول نہیں کیونکہ اس قانون سازی سے ملک میں فساد ہوگا۔

وزیر مملکت برائے پارلیمانی امور علی محمد خان نے کمیٹی کو بریفنگ دیتے ہوئے کہا کہ وزیر اعظم پاکستان کے نوٹس میں یہ مسئلہ لایا گیا اور انھوں نے اس پر پارلیمان کی خصوصی کمیٹی بنائی اور ہماری حکومت جبری مذہبی تبدیلیوں کے حوالے سے سنجیدہ ہے لیکن ہم اپنے ملک کے لئے قانون سازی کریں گے، ہمیں کسی بین الاقوامی ادارے یا این جی او سے شاباشی نہیں لینی۔

وزیر مملکت نے کہا کہ ہم اس قانون سازی کے حق میں نہیں کیونکہ عمر کا تعین اسلام اور آئین پاکستان کے خلاف ہے۔ علی محمد خان نے مزید کہا کہ مجھے وزیر قانون فروغ نسیم نے اپنے دفتر بلایا اور کہا کہ جبری مذہبی تبدیلیوں کے حوالے سے قانون سازی نہیں کرنی کیونکہ یہ ایک خطرناک قانون سازی ہے اور اس سے مسائل بڑھیں گے۔ "مجھے وزیر قانون نے کہا کہ وزارت کی کوئی اہمیت نہیں کیونکہ وزارتیں آنی جانی ہیں لیکن ہمیں اسلام کے خلاف نہیں جانا چاہیے۔"

سینیٹر مشتاق احمد نے قانون سازی پر رائے دیتے ہوئے کہا کہ موجودہ حکومت کی غلط پالیسیوں اور غفلت کی وجہ سے نہ صرف پاکستان بلکہ اسلام اور اقلیتیں بھی ایک کٹہرے میں کھڑی ہو گئی ہیں۔ سینیٹر مشتاق احمد کے رائے پر وزیر انسانی حقوق، وزیر مذہبی امور اور وزیر مملکت علی محمد خان نے شدید احتجاج کرتے ہوئے کہا کہ غلط بیانی کر رہے ہیں اور جبری مذہبی تبدیلیوں کا قانون حکومت کا نہیں تھا۔

سینیٹر مشتاق احمد نے مزید کہا کہ ملک میں جبری مذہبی تبدیلیوں کا کوئی مسئلہ نہیں ہے اور نہ کسی کو زبردستی اسلام قبول کرنے کے لیے مجبور کیا جارہا ہے اور یہ بل انسداد اسلام ہے۔

وزیر انسانی حقوق شیریں مزاری نے کہا کہ نہ حکومت اور نہ وزارت نے اس بل کو سامنے لائی ہے اور نہ ہی یہ حکومتی بل ہے بلکہ یہ ایک پرائیویٹ ممبر کا بل ہے۔

حکمران جماعت سے اقلیتی ایم این اے لال مالہی نے وزیر مذہبی امور اور وزیر مملکت علی محمد خان کے ریمارکس پر برہمی کا اظہار کرتے ہوئے کہا کہ آپ کے فیصلوں سے یہ تاثر سامنے آرہا ہے کہ ملک میں جبری مذہبی تبدیلیوں کا کوئی مسئلہ ہے ہی نہیں۔ انھوں نے مزید کہا آپ تو اقلیتوں کو دیوار سے لگا رہے ہیں اور ایسے فیصلوں سے ملک اقلیتوں کے لئے جہنم بن جائے گا۔ لال ملہی نے مزید کہا کہ اس قانون کو اسلامی نظریاتی کونسل اور وزارت مذہبی امور نے رد نہیں کیا تھا بلکہ اس بل کو میاں مٹھو کے احکامات پر رد کیا گیا۔

لال ملہی کے ریمارکس پر کمیٹی کے اکثر ممبران سیخ پا ہو گئے اور وزیر مملکت علی محمد خان اور وزیر مذہبی امور نے لال ملہی پر تنقید کرتے ہوئے کہا کہ آپ غلط بیانی کر رہے ہیں اور سیاسی بیانات دیں رہے ہیں۔ لال ملہی کی رائے پر جماعت اسلامی کے سینیٹر مشتاق احمد آپے سے باہر ہو گئے اور کہا کہ چاہیے جو بھی ہوجائے لیکن ہم اسلام کے خلاف قانون سازی کی اجازت نہیں دیں گے۔

کمیٹی میں اقلیتی ممبران نے احتجاج کرتے ہوئے کہا کہ ہماری بیٹیوں اور بہنوں کو دن دہاڑے اٹھایا جارہا ہے اور ان کو زبردستی مسلمان کیا جا رہا ہے اور یہاں کمیٹی کے مسلمان ممبران موقف اپنا رہے ہیں کہ ملک میں جبری مذہبی تبدیلیوں کا کوئی مسئلہ نہیں۔

کمیٹی ممبر مولوی فیض محمد نے مؤقف اپنایا کہ یہ قانون اسلام اور شریعت کے خلاف ہے اور ہم ملک میں اسلام کے خلاف کسی قانون سازی کی اجازت نہیں دیں گے۔

کمیٹی میں اظہار خیال کرتے ہوئے اقلیتی ممبر رمیش کمار نے کہا جو لوگ اسلام سے متاثر ہو کر اسلام میں داخل ہوتے ہیں ہم خیر مقدم کرتے ہیں لیکن بہت سارے ہندوؤں کو رقم اور شادی کی لالچ دے کر دائرہ اسلام میں داخل کیا جاتا ہے لیکن جب اس پر عمل نہیں ہوتا تو وہ لوگ واپس اپنے گھروں میں آ جاتے ہیں تو اس کا مطلب یہی ہے کہ وہ اپنی مرضی سے اسلام میں داخل نہیں ہوئے۔

رمیش کمار نے مزید کہا کہ اس طرح قانون سازی کو روکنے کا مطلب یہی ہے کہ ریاست جبری مذہبی تبدیلیوں میں ملوث عناصر سے گھبرائی ہوئی ہے۔
مزیدخبریں