انڈیپینڈنٹ اردو میں شائع خبر کے مطابق ملزم بچے کے وکیل نے ضمانت نہ ہونے کی وجوہات بیان کرتے ہوئے کہا ہے کہ پولیس نے اس کیس کا چالان سیشن کورٹ میں جمع کروایا تھا لیکن جج صاحب بیمار ہو گئے، جب تاریخ ملی تو انہوں نے سماعت سے انکار کرتے ہوئے کہا کہ اسے علاقہ مجسٹریٹ کے پاس لے کر جایا جائے کیونکہ یہ میرا ٹرائل نہیں بنتا۔
وکیل کا کہنا تھا کہ درخواست علاقہ مجسٹریٹ کے پاس جائے گی یا ایڈیشنل جج کے پاس، اس بات کا فیصلہ ہی نہیں ہو پا رہا تھا لیکن نے سوچا کہ جو ہوگا دیکھا جائے گا، اس لئے دوسری درخواست بھی ایڈیشنل سیشن جج کے پاس جمع کرا دی۔
انہوں نے اس کی وجہ بیان کرتے ہوئے کہا کہ پولیس کی جانب سے یہ مقدمہ 377 ب کے تحت درج کیا گیا جو زیادتی کی دفعہ ہے۔ اس کا چالان ایڈیشنل سیشن جج کو ہی جمع کرایا گیا تھا۔
ایڈووکیٹ لطف اللہ نے بتایا کہ کیس کی پہلی سماعت رواں سال 29 ستمبر کو ہوئی لیکن جج نے 6 اکتوبر کی تاریخ دیدی، 6 اکتوبر کو عدالت پہنچے تو پتا چلا کہ جج صاحب کا تو تبادلہ کر دیا گیا ہے، اس لئے اب سماعت 12 اکتوبر رکھ دی گئی ہے۔
ان کا کہنا تھا کہ لیکن اس 9 سالہ ملزم کی 12 اکتوبر کو بھی ضمانت ممکن نہیں ہو سکی کیونکہ جج صاحب ابھی نئے ہیں۔ وہ عدالت بھی دیر سے پہنچے جبکہ مدعی کا وکیل بھی غیر حاضر رہا، اس وجہ سے کیس کی سماعت نہیں ہوئی اور عدالت نے اگلی تاریخ 21 اکتوبر کو دیدی ہے۔
دوسری جانب قانونی ماہرین کا کہنا ہے کہ تعزیرات پاکستان کے سیکشن 82 کے تحت اگر دس سال سے کم عمر بچہ اگر کوئی جرم کرتا ہے تو اس کیخلاف کسی قسم کی بھی قانونی کارروائی نہیں ہو سکتی، اس لئے ضمانت تو دور کی بات بچے کیخلاف ایف آئی آر تک درج نہیں ہو سکتی۔