ہم لوگ نبیﷺ کو تو مانتے ہیں لیکن نبیﷺ کی نہیں مانتے

02:05 PM, 13 Oct, 2021

فیصل فرحان
ربیع الاول کا مہینہ ویسے تو بہت سی وجوہات کی بنیاد پر عظمتوں والا ہے لیکن ایک سب سے عظیم وجہ وہ ہے میرے اور آپکے نبیؐ کی ولادت۔ یہی وہ برکتوں والا مہینہ تھا جب میرے نبی کریم حضرت محمدؐ اس دنیا میں تشریف لائے۔ نہ صرف مسلمان بلکہ تمام مذاہب کے لوگ جانتے ہیں کہ نبی کریمؐ کی آمد سے قبل ہر طرف ظلم و بربریت تھی، نہ کسی کو باپ کی تمیز تھی اور نہ ماں کی، عورت کو اس معاشرے معیوب سمجھا جاتا تھا، بیٹی کو پیدا ہوتے ہی زندہ دفن کر دیا جاتا تھا۔ امیر کوئی جرم کرتا تو معاف کر دیا جاتا اور غریب کرتا تو اسے سزا دی جاتی یعنی ہر لحاظ سے ظلم و بربریت کا نظام قائم تھا۔ پھر میرے پیارے نبیؐ کو رحمت بنا کر بھیجا گیا جس نے اس دنیا کے تمام کالے قانون ختم کر دیے اور دنیا کو انصاف، پیار،ہمدردی اور زندگی کا اصل مقصد سمجھایا۔ نبیؐ کی پوری زندگی تمام بنی نوع انسان کیلیے ایک بہترین نمونہ ہے۔ آپؐ نے دنیا کو ہر لحاظ اور ہر موضوع پر ٹیچ کیا۔ چند ایک موضوع درج ذیل ہیں:

ماں باپ کا مقام: آپؐ نے دنیا کو ماں باپ کا مقام اور ان کی عزت بتائی۔ آپؐ نے فرمایا کہ کبھی اپنے ماں باپ کے سامنے افف تک نہ کہو۔ ایک دفعہ صحابہؓ کی بیٹھک میں آپؐ نے فرمایا کہ ماں کی عزت بہت بلند ہے اور سمجھانے کیلیے مثال دی کی اگر میں محمدؐ نماز پڑھ رہا ہوں اور میری ماں مجھے آواز دے کر بلائے تو میں نماز چھوڑ کر سب سے پہلے اپنی ماں کی بات سنوں گا۔۔ اللہ اکبر۔ زرا سوچیے نماز وہ چیز ہے جو خالصتاً اللہ پاک کیلیے ہے لیکن نبیؐ نے ماں کی عزت کی خاطر نماز چھوڑنے تک کا حکم دیا اور فرمایا کہ پہلے ان کی بات سنوں پھر وہی سے نماز شروع کر لوں۔ پھر ایک اور جگہ آپؐ نے فرمایا کہ باپ جنت کا دروازہ ہے اور ماں کے پاؤں تلے جنت ہے یعنی دونوں کی عزت و تکریم کرتے رہو جنت پا لو گے۔

بیٹی کا مقام و مرتبہ: نبیؐ کی آمد سے قبل بیٹی کو معیوب سمجھا جاتا تھا اور پیدا ہوتے ہی زندہ دفن کر دیا جاتا تھا لیکن نبیؐ نے پوری دنیا کو بتایا کہ بیٹی رحمت ہے۔ سب سے بڑی بات کہ نبی کریمؐ کی نسل بھی ان کی بیٹی سے آگے بڑھی۔ جب آپؐ کی بیٹی فاطمہ تشریف لاتی تو آپؐ ان کے احترام میں کھڑے ہوجاتے۔۔اللہ اکبر۔۔ کہاں بیٹی کو منحوس سمجھا جاتا تھا اور کہاں بیٹی کیلیے رسالت ماآب خود کھڑے ہو گئے۔ یہ عمل فقط دنیا کو بیٹی کا مقام بتانے کیلیے تھا کہ بیٹی زحمت نہیں رحمت ہوتی ہے اور اس کو پیار دیا کرو۔

بیوی کا مقام: نبیؐ کی آمد سے قبل جو معاشرہ تھا اس میں بیوی کو بس استعمال کی شے سمجھا حاتا تھا اور اسے جوتے کی نوک پر رکھا جاتا تھا حتی کہ اگر کوئی بیوی اپنے شوہر کے ساتھ بیٹھ کر کھانا کھا لیتی یا اس کے برابر بیٹھ جاتی تو اسے تشدد کا نشانہ بنایا جاتا کیونکہ ان کے نزدیک عورت نہ تو پہلے کھانا کھا سکتی ہے اور نہ مرد کے برابر بیٹھ سکتی ہے۔ لیکن ہمارے نبیؐ نے عملاً دنیا پر بیوی کے حقوق واضع کر دیے۔ آپؐ اپنی بیویوں سے بے حد محبت فرماتے تھے، جس جگہ آپؐ کی بیوی منہ لگا کر پانی پیتی تھی اسی جگہ پر آپؐ منہ لگا کر پانی پیتے تھے تاکہ عورت کو یہ نہ لگے کہ ہم مردوں کی غلام ہیں بلکہ ایک دوست اور محبوبہ ہیں۔ زرا خود تصور کریئے کہ کہاں بیوی کو جوتے کی خاک سمجھا جاتا تھا اور کہاں نبی کریمؐ جیسا عظیم نبی اپنی بیوی کا جوٹھا پانی نوش فرماتے تھے۔ پھر ایک دفعہ صحابہؓ کی مجلس میں نبیؐ نے سب صحابہ سے فرمایا کہ بتاؤ مجھے دنیا میں سب سے زیادہ کون عزیز ہے تو سب صحابہؓ نے مختلف جوابات دیے پھر نبیؐ نے فرمایا کہ مجھے دنیا میں سے سے زیادہ پیاری میری بیوی عائشہؓ ہے۔ یوں سرعام محفل میں محبت کا اظہار کرنے کا واحد مقصد اپنی امت کو بیوی کی اہمیت بتانا تھا۔ آپؐ اکثر اپنی بیویوں کے ساتھ کام میں ہاتھ بٹاتے تھے یعنی بیوی کا ہاتھ بٹانا نبیؐ کی سنت ہے۔

جانوروں سے محبت: میرے نبیؐ نا صرف انسانوں سے محبت فرماتے تھے بلکہ جانوروں سے بھی محبت فرماتے تھے۔ آپ سب نے وہ والا واقعہ سنا ہوگا کہ ایک اونٹ بھاگ کر نبیؐ کے پاس آگیا اور پیچھے سے اس کا مالک بھی آگیا تو اونٹ نے رو کر کہا کہ اے اللہ کے نبیؐ یہ میرا مالک مجھ پر حد سے زیادہ وزن لادتا ہے اور کھانا کم دیتا ہے تو اللہ کے نبیؐ نے اس شخص کو تلقین کی کہ جانوروں پر حد سے زائد وزن نہ ڈالو اور ان کو خوب چارا کھلایا کرو۔ پھر ایک دفعہ نبیؐ کی قیادت میں جنگ کیلیے لشکر جا رہا تھا تو راستے میں کچھ کتے کے چھوٹے بچے بیٹھے تھے تو آپؐ کو لگا کہ کہیں ان میں سے کوئی لشکر کے نیچے آکر مر نا جائے اس لیے ایک صحابیؓ کو ان کتے کے بچوں کے پاس بطور سیکورٹی گارڈ کھڑا کر دیا تاکہ لشکر ان کو کچلے بغیر گزر جائے۔ قربان جائیے جانوروں کے درد کا بھی اتنا خیال تھا۔

انصاف کے پیکر: حضرت محمدؐ سب سے بڑے انصاف کے پیکر تھے۔ آپؐ ہمیشہ انصاف کو پہلی ترجیح دیتے تھے۔ جب ایک دفعہ قریش کی عورت چوری کے جرم میں پکڑی گئی تو آپؐ نے حکم دیا کہ اس کے ہاتھ کاٹ دو۔ تو اس قبیلے کے لوگوں نے ایک صحابیؓ سے اس کی سفارش کروائی جس پر نبیؐ نے فرمایا کہ اگر اس کی جگہ میری بیٹی فاطمہ بھی چوری کرتی تو میں اسے بھی یہی سزا دیتا۔ آپؐ انصاف پر کبھی اکتفاء نہیں کرتے تھا۔

نبی کریمؐ کی شان پر ہزاروں کتب بھی لکھی جائیں تو کم ہیں کیونکہ دوات اور اوراک تو ختم ہو سکتے ہیں لیکن میرے نبیؐ کی شان نہیں۔ آج ہمیں اشد ضرورت ہے کہ نبیؐ کے احکامات پر عمل کریں۔ انہی کی طرح جانوروں، بیوی، ماں باپ اور تمام انسانوں سے محبت کریں۔ بد قسمتی سے یہ کہنا پڑ رہا ہے کہ ہم لوگ نبیؐ کو تو مانتے ہیں لیکن نبیؐ کی نہیں مانتے، جس دن ہم سب نے نبیؐ کی باتیں اور احکامات پریکٹیکل طور پر ماننے شروع کر دیے اس دن ہم عظیم امت بن جائیں گے۔

آخر میں نبیؐ کی شان پر ایک شعر:

"امیرِ کاروانِ زیست امام الانبیاء تم ہو
خدا کے خاص پیغمبر محمد مصطفیٰ تم ہو"
مزیدخبریں