اسلام کے علاوہ خطے کے دوسرے مذاہب کی پیش کردہ اس تصویر سے یقیناً ایک طرف تو پاکستانی غیر مسلم طالبعلوں کی دل شکنی ہوتی ہے جس سے وہ احساس محروی کا شکار ہوتے ہیں تو دوسری طرف مسلم طالبعلموں میں اپنے غیر مسلم ساتھیوں کو نیچ اور گھٹیا سمجھنے کی بھی تربیت ملتی ہے۔
مشہور تاریخ دان ڈاکٹر مبارک علی کا کہنا ہے کہ برصغیر پاک وہند میں سیاسی تصادم کو مذہبی لڑائی کی شکل میں پیش کیا گیا ہے۔ "ہمیشہ ایک واقعہ کے کئی محرکات ہوتے ہیں جبکہ ہم تاریخ کو سیاہ وسفید یا صحیح اور غلط میں دیکھنا چاہتے ہیں۔"
ان کا یہ بھی کہنا ہے کہ برصغیر میں مسلمانوں کے دور حکومت کو " اسلامی دور حکومت" گرداننا تاریخ کو مسخ کرنے کے مترادف ہے۔
قومی کمیشن برائے امن وانصاف کی رپورٹ میں دئیے گئے اقتباسات سے یوں لگتا ہے کہ درسی کتب مذہبی تنوع یا ہم آہنگی کے ذرا کم ہی حق میں ہیں۔ پنجاب ٹیکسٹ بک بورڈ کی اردو کی کتاب برائے جماعت چہارم میں لکھا ہے کہ "ہم جتنے اچھے مسلمان بنیں گے اتنے ہی اچھے شہری ثابت ہوں گے"۔ جبکہ اسی بورڈ کی جماعت پنجم کی اردو کی کتاب یہ سکھاتی ہے کہ " اگر آبادی ایک ہی مذہب سے تعلق رکھتی ہو تو اس میں ناصرف ایک قومیت کا احساس بڑھتا ہے بلکہ قومی اتحاد پیدا ہوتا ہے۔" کچھ اسی طرح بلوچستان ٹیکسٹ بک بورڈ کی جماعت سوئم کے لئے اردو کی کتاب بتاتی ہے کہ " مسلمان تمام قوموں سے برتر ہیں"۔
اسی طرح کتب میں مذہبی ہم آہنگی کے بجائے مذہبی ٹکرائو کو زیادہ فروغ دیا گیا ہے۔ پنجاب ٹیکسٹ بک بورڈ کی جماعت ششم کے لئے اسلامیات کی کتاب میں لکھا ہے کہ "جو شخص استطاعت کے باوجود حج نہیں کرتا تو اس کے لئے کوئی فرق نہیں، اس بات میں کہ وہ یہودی ہو کر مرے یا نصرانی ہو کر"۔
جماعت ہشتم کی اسلامیات کی کتاب میں لکھا ہے کہ "غیر مسلموں کی کاروبار میں دیانت ان کی محض ایک پالیسی ہے جبکہ ہمارے لئے دیانت ایمان کا مسئلہ ہے۔" سندھ ٹیکسٹ بک بورڈ کی جماعت ہشتم کی اسلامیات میں لکھا ہے کہ "دنیا کے اکثر مذاہب اور دنیا کی بڑھتی قومیں مساوات کا دعویٰ تو بہت کرتی ہیں لیکن اس پر عمل نہیں کرتیں۔"
یہاں یہ امر قابل ذکر ہے کہ پاکستان میں غیر مسلم بھی اسلامیات ہی پڑھتے ہیں کیونکہ اخلاقیات کی نہ تو کتب بازار میں دستیاب ہیں اور نہ ہی سکولوں میں اس مضمون کو پڑھانے کے لئے اساتذہ کی تقرری کی گئی ہے۔
ہماری درسی کتب بہادری، آزادی کے لئے لڑائی، بغاوت، قبضہ، فتح، مقابلہ وغیرہ جیسی عسکری اصطلاحات کو مذہبی شناخت کے ساتھ جوڑتی ہیں۔ سندھ ٹیکسٹ بک بورڈ کی جماعت نہم ودہم کی اردو کی کتاب بتاتی ہے کہ "انگریزوں نے اپنے قدم جمائے اور ملک میں انتشار پھیل گیا۔ لیکن ایسے گئے گزرے حالات میں بھی قوم کو فروغ دینے اور اسلام کو سربلند کرنے کے لئے میسور کے سلطان حیدر علی اور اس کے بیٹے سلطان ٹیپو نے ہندوؤں اور انگریزوں کا مقابلہ کیا"۔
پنجاب ٹیکسٹ بک بورڈ کی جماعت نہم کی مطالعہ پاکستان کی کتاب یہ بتاتی ہے کہ "انگریزوں کا راج قائم ہوا تو اسلام اور مسلمانوں کی آزاد حیثیت کو نقصان پہنجا۔"
بلوچستان ٹیکسٹ بک بورڈ کی جماعت ہفتم کی اردو کی کتاب کہتی ہے کہ "انگریزوں کو اس بات کا احساس تھا کہ یہ ملک انہوں نے مسلمانوں سے چھینا ہے۔ دوسرا وہ مسلمانوں کی شاندار تاریخ سے بھی واقف تھے۔ اس لیے انہیں ڈر تھا کہ ہندوستان کی حکمرانی کے اصل وارث یعنی مسلمان کسی بھی وقت ان کے لئے خطرے کاباعث بن سکتے ہیں"۔
تاہم درسی کتب مسلمانوں کی برصغیر میں "آمد" پر ہندوؤں کی جانب سے اس طرز کے رویہ کو بغاوت اور مکاری بیان کرتی ہیں۔ جماعت ششم کی تاریخ کی کتاب برائے پنجاب ٹیکسٹ بک بورڈ میں محمد بن قاسم کی فوج کے بارے میں لکھا ہے کہ " مسلمان بڑی بہادری سے لڑے"۔
اسی کتاب کے مطابق " ہندو راجہ نے اپنی قوت بڑھانے کے بعد دہلی کی حکومت کو خراج دینا بند کر دیا۔ چنانچہ سلطان نے 1321ء میں راجہ کو سزا دینے کے لئے اپنے لڑکے جونا خان کو بھیجا اور سلطان ابراہیم نے اس بغاوت کو دبا دیا"۔
سندھ ٹیکسٹ بک بورڈ کی مطالعہ پاکستان کی کتاب بتاتی ہے کہ "سکھوں کے خلاف دوسری جنگ حضرو کے مفام پر لڑی گئی۔ اس میں بھی مسلمان فتحیاب رہے۔"
اسی طرح پنجاب ٹیکسٹ بک بورڈ کی تاریخ کی کتاب برائے جماعت ششم سکھاتی ہے کہ "سلطنت دہلی کی زیادہ تر آبادی ہندوؤں پر مشتمل تھی جو مسلمانوں کو اجنبی تصور کرتے تھے۔ مسلمان حکمرانوں کی حکومت سے انہیں کوئی خاص ہمدردی اور دلچسپی نہ تھی۔ اس لئے وہ ہر وقت مسلمانوں سے آزاد ہونے کی فکر میں رہتے تھے۔ ہندو جاگیردار مالیہ ادا کرنے میں مختلف حیلوں بہانوں سے کام لیتے تھے۔ بعض اوقات وہ بغاوت پر بھی اتر آتے تھے"۔
ان درسی کتب کے مطابق گو کہ ہندوستان پر حکومت مسلمانوں کی رہی مگر ہندو کو جب بھی موقع ملا اس نے مسلمانوں پر ظلم کیا۔ پنجاب ٹیکسٹ بک بورڈ کی جماعت نہم کی مطالعہ پاکستان کی کتاب یہ بتاتی ہے کہ اگر اقتدار ہندوؤں کو مل جاتا تو وہ "دوبارہ ظلم و زیادتیاں" کرتے۔
اسی کتاب میں یہ قیاس آرائی بھی مندرج ہے کہ "پاکستان کا قیام ہندوؤں کی مرضی کے خلاف عمل میں آیا تھا، اس لئے انہوں نے پاکستان کو کبھی دل سے قبول نہیں کیا۔ پاکستان کی حیران کن ترقی اور استحکام ان کی آنکھوں میں کانٹے کی طرح کھٹکنے لگا۔ چنانچہ انہوں نے پاکستان کو تباہ کرنے لے لئے جارحانہ اقدامات شروع کر دیے"۔
اب بھلا کوئی اس تحریر لکھنے والے سے پوچھے کہ ملک میں بسنے والے کم ازکم تیس لاکھ سے زائد ہندوؤں نے پاکستان کے خلاف کیا سازش کی ہے جو یہ بیان جاری کیا گیا ہے اور اگر یہاں مراد ہندوستان ہے تو پھر ملک کا نام لکھنا چاہیے تھا نہ کہ ہندو دھرم کا نام۔
پنجاب ٹیکسٹ بک بورڈ کی جماعت ہفتم کی تاریخ کی کتاب کے مطابق "اکبر کی ہندو نواز پالیسی سے ہندوؤں کے حوصلے اس قدر بڑھ گئے تھے کہ "جن علاقوں میں ہندوؤں کی اکثریت تھی وہاں انہوں نے مسلمانوں کو بہت تنگ کر رکھا تھا"۔
ان کتب کے مطابق سکھ مذہب کو ماننے والے بھی مسلمانوں پر ظلم کرنے میں کسی سے کم نہ تھے۔ پنجاب ٹیکسٹ بک بورڈ کی جماعت ہفتم کی تاریخ کی کتاب بتاتی ہے کہ "ان دنوں پنجاب اور سرحد پر سکھوں کی حکومت تھی۔ سکھوں نے مسلمانوں کے ناک میں دم کر رکھا تھا"۔ جنگوں میں زیادتی ہندوؤں، انگریزوں اور سکھوں نے کیں۔
سندھ ٹیکسٹ بک بورڈ کی جماعت ہفتم کی اردو کتاب بتاتی ہے کہ اورنگزیب پر "تنگ نظر ہندوؤں اور عیار انگریزوں نے تعصب کے جو الزامات لگائے ہیں وہ سراسر غلط ہیں"۔
معاشرتی علوم کی جماعت ہشتم کی کتاب میں لکھا ہے کہ " انگریز اور سکھ سپاہیوں نے عورتوں کی بے حرمتی کی اور معصوم بچوں کو موت کے گھاٹ اتار دیا"۔ جبکہ محمد بن قاسم اور محمود غزنوی کو ملنے والی دولت کی تفصیل کچھ اس طرح سے بیان ہے۔ پنجاب ٹیکسٹ بک بورڈ کی جماعت ششم کی کتاب برائے تاریخ یہ کہتی ہے کہ "ملتان سے محمد بن قاسم کو بے شمار دولت ملی"۔ اسی طرح سے جب "محمود غزنوی کو اس بات کا علم ہوا تو اس نے سومنات پر حملہ کیا اور اسے فتح کر لیا۔ اس مندر میں بے شمار دولت موجود تھی۔"
اسی کتاب میں لکھا ہے کہ "راجہ نے مقابلہ کیا مگر شکست کھائی اور سلطان کی اطاعت قبول کر لی۔ راجہ نے کافی رقم، جواہرات اور 36 ہاتھی ملک کافور کو پیش کئے"۔
پنجاب ٹیکسٹ بک بورڈ کی جماعت ہفتم کی اردو کی کتاب کے مطابق "ان کے بحری جہاز، کشتیاں، دفاتر، ریلوے اسٹیشن، گاڑیاں، اسلحہ، حتیٰ کہ وہ مندر بھی تباہ ہو گیا جو چند صدیاں پہلے محمود غزنوی نے ملتان سے آکر تباہ و برباد کیا تھا۔ یہ مندر آزادی کے بعد ہندوؤں نے پھر سے تعمیر کر لیے تھے اور اب ایک بار بھر وہ اسلام کے مجاہدوں کی زد پر تھا"۔
پنجاب ٹیکسٹ بک بورڈ کی جماعت پنجم کے لئے اسلامیات کی کتاب میں لکھا ہے کہ "برصغیر پر مسلمانوں نے قریباً ایک ہزار سال بڑی شان وشوکت سے حکومت کی لیکن کسی بھی ہندو کو زبردستی مسلمان نہیں بنایا۔ اگر وہ ایسا کرنا چاہتے تو برصغیر میں ہندوؤں کا نام و نشان تک نہ ملتا لیکن مسلمانوں نے کمال رواداری کا مظاہرہ کرتے ہوئے ہندوؤں کو بڑے بڑے عہدے عطا کیے۔" اس کے برعکس انگریزوں نے زبردستی مسیحی بنانے کی اجازت دے رکھی تھی۔
خیبر پختونخواہ ٹیکسٹ بک بورڈ کی تاریخ کی کتاب برائے جماعت ہفتم کے مطابق " انگریز افسر مقامی سپاہوں سے نفرت آمیز اور ظالمانہ سلوک کیا کرتے تھے۔ پادریوں نے مقامی لوگوں کو زبردستی مسیحی بنانا شروع کر دیا تھا"۔
اسی طرح جماعت دہم کی اردو کی کتاب بتاتی ہے کہ "اس زمانے میں ہندوؤں نے مسلمانوں کو ہندو بنانے کے لئے شدھی کی تحریک شروع کی"۔ ان کتب کے مطابق برصغیر کی تاریخ میں مسلمان ہمیشہ غیر مسلمانوں کی وجہ سے بدقسمت اور مظلوم رہے۔
پنجاب ٹیکسٹ بک بورڈ کی جماعت نہم کی مطالعہ پاکستان کی کتاب یہ بتاتی ہے کہ "غیر مسلموں کے اقتدار میں مسلمان مجبور اور محکوم رہے"۔ پنجاب ٹیکسٹ بک بورڈ کی جماعت ہفتم کی تاریخ کی کتاب مسلمانوں کی مشرقی پاکستان میں حالت زار یوں مرقوم کرتی ہے: "بدقسمتی سے بنگالی مسلمان ہمیشہ تعلیمی میدان میں ہندو سے کمتر رہا۔"
بلوچستان ٹیکسٹ بک بورڈ کی جماعت ہفتم کی معاشرتی علوم کی کتاب کے مطابق "جنگ آزادی میں حصہ لینے والوں کو عام معافی دینے کا وعدہ بھی ہوا لیکن انگریزوں اور ہندوؤں کی ریشہ دوانیوں کی وجہ سے ان اعلانات اور وعدوں پر عملدرآمد نہ ہو سکا۔ مسلمانوں کے ساتھ بے انصافیوں، زیادتیوں اور ان کی حق تلفیوں کا سلسلہ بدستور جاری رہا۔" بلوچستان ٹیکسٹ بک بورڈ کی جماعت ہفتم کی معاشرتی علوم کی کتاب کے مطابق "مایوسی اور بددلی کے دور میں مسلمانوں کے ہندوؤں کی سیاسی تحریکوں کا ساتھ دیا۔ مقصد یہ تھا کہ کسی طرح انگریز کی غلامی سے نجات ملے، لیکن حسب عادت ہندوؤں نے مسلمانوں کے ساتھ ہر جگہ دھوکہ کیا۔"
اسی طرح برصغیر میں مسلمانوں کی اخلاقی کمزوری اور بدحالی کی وجہ بھی غیر مسلم بنے کیونکہ سندھ ٹیکسٹ بک بورڈ کی مطالعہ پاکستان کی کتاب بتاتی ہے کہ وہ "اس نتیجہ پر پہنچے کہ غیر مسلموں کے اثرات کی بدولت اسلامی روح وجذبہ اور اقدار تباہ ہو رہی ہیں۔"
خیبر پختونخواہ ٹیکسٹ بک بورڈ کی جماعت ششم کی تاریخ کی کتاب کے مطابق "انگریزوں کے مسلمانوں پر اعتماد نہ کرنے اور ظلم وستم کی حکمت عملی نے مسلمانوں کی اقتصادی اور تعلیمی لحاظ سے بہت نقصان پہنچایا اور ہندو زمینداروں کے سلوک نے انہیں بدحالی میں مبتلا کر دیا۔ ہندوؤں کے زیر اثر آ کر وہ بہت سی بدعتوں کا شکار ہو گئے تھے۔"
خیبر پختونخواہ ٹیکسٹ بک بورڈ کی جماعت ششم کی اردو کی کتاب کے مطابق "گزشتہ دو سو سال قبل عالم اسلام کے خلاف جو سازشیں ہوئیں، ان کے نتیجے میں بیشتر اسلامی ممالک غیروں کی غلامی میں چلے گئے"۔
اسی کتاب میں آگے یہ رقم ہے کہ " بیسویں صدی کے نصف آخر میں عالم اسلام مغرب کے تسلط سے آزاد ہو گیا لیکن مغربی طاقتوں نے سازشیں جاری رکھیں تاکہ عالم اسلام متحد نہ ہو اور مسلمان دنیا کی سب سے بڑی قوت نہ بن سکیں۔"
قومی کمیشن برائے امن وانصاف کی حالیہ رپورٹ "حبس زدہ تعلیم سے رہائی" کے مطابق اٹھارویں آئینی ترمیم کے ذریعے وفاقی حکومت کی جانب سے اختیارات کو صوبائی سطح تک منتقل کرنے کی کوشش کی گئی ہے۔ مگر اس وجہ سے تعلیم کے کئی معیارات مقرر ہو گئے ہیں۔ درسی کتب سے جھلکنے والی متعصبانہ تعلیمی پالیسی ناصرف معصوم ذہنوں میں زہر گھول رہی ہے بلکہ غیر مسلم طالبعلموں میں اپنے وطن سے اجنبیت کو بھی پروان چڑھا رہی ہے۔
نیشنل ایکشن پلان نے مطابق درسی کتب سے اس نوعیت کا مواد نکالنا تھا۔ پنجاب ہائیر ایجوکیشن دپارٹمنٹ نے سپریم کورٹ کو دسمبر 2014ء میں یہ بتایا تھا کہ تنگ نظری پر مبنی مواد کو کتابوں سے خارج کرنے کی غرض سے ایک کمیٹی تشکیل دی گئی ہے۔ یہ بھی بتایا گیا کہ سفارشات تیار کی گئی ہیں تاکہ طالبعلوں کو پڑھایا جاۓ کہ تمام ادیان کا بنیادی پیغام ایک ہی ہے یعنی فلاح انسانی۔