اس انٹرویو کو ابھی بمشکل ایک ہفتہ گزرا ہے اور عمران خان صاحب کی جماعت پاکستان تحریک انصاف کے ایک کارکن کی جانب سے دینہ، جہلم میں پیمرا کے سابق سربراہ اور سینیئر صحافی ابصار عالم پر بغاوت کا مقدمہ درج کروا دیا گیا ہے۔ مقدمہ درج کروانے والا شخص کوئی اور نہیں بلکہ انصاف لائرز فورم کا صدر چودھری نوید احمد ہے۔ ایف آئی آر میں لکھا گیا ہے کہ ابصار عالم نے افواج پاکستان اور وزیر اعظم پاکستان کے بارے میں ٹوئٹر پر انتہائی گھٹیا زبان استعمال کی ہے جو کہ غداری کے زمرے میں آیا ہے۔ کسی اور ملک میں شاید وزیر اعظم پر تنقید جمہوری حق کہلاتا ہو۔ بلکہ پرانے پاکستان میں تو وزیر اعظم کو گریبان سے پکڑ کر گھسیٹنے، اس کی شلوار گیلی کرنے کے بارے میں بآوازِ بلند سڑکوں پر کنٹینر کھڑے کر کے مجمعے لگا کر اعلانات کیے جاتے تھے۔ اور اب حال یہ ہے کہ ٹوئٹر پر تنقید بھی غداری کے زمرے میں آنے لگی ہے۔
ایف آئی آر میں اگلے نکتے کے ذریعے موصوف نے افواجِ پاکستان کو رام کرنے کی بھرپور کوشش کی ہے یا پھر شاید یہ ثابت کرنے کی کہ حکومت اور فوج ایک ہی صفحے پر ہیں۔ چوتھے نکتے میں وہ وزیر اعظم کی مدح سرائی یوں کرتے ہیں گویا شرک کی اجازت ہوتی تو پوجنے لگتے۔ لکھتے ہیں کہ ملکی تاریخ میں پہلی مرتبہ ایک امانتدار اور دیانتدار وزیر اعظم اس قوم کو نصیب ہوا ہے جو دن رات ایک کر کے اس قوم و ملک کی خاطر اقدام کر رہا ہے اور اس ملک کو بحرانوں سے نکالنے کے لئے تگ و دو کر رہا ہے۔ ان کو شکایت ہے کہ ابصار عالم نے ان کے ممدوح کے لئے نامناسب زبان استعمال کی ہے۔ ذرا سوچیے کہ پہلے سال 1.9 اور دوسرے سال منفی 0.4 جی ڈی پی والی حکومت ہے تو ان پر تنقید غداری قرار پائی ہے۔ اگر وزیر اعظم ملک کی جی ڈی پی گروتھ واقعتاً 3 یا 4 فیصد پر لے گئے تو ان کے علاوہ کسی کو ووٹ دینے پر کفر کے فتوے نہ لگنے لگیں۔
میڈیا اطلاعات کے مطابق ایکسپریس میڈیا سے تعلق رکھنے والے صحافی بلال فاروقی کو مسلح افواج کے حوالے سے فیسبک پوسٹ پر ان کے ڈی ایچ اے میں واقع گھر سے پولیس نے گرفتار کر لیا ہے۔ ان کے خلاف درخواست دہندہ ایک فیکٹری میں مشین آپریٹر ہے۔
نیا دور کو دستیاب ایف آئی آر میں کہا گیا ہے کہ صحافی بلال فاروقی کی جانب سے کی جانے والی پوسٹ میں مذہبی طور پر متنازع باتیں درج تھیں جب کہ پوسٹ میں مسلح افواج سے متعلق ایسی باتیں موجود تھیں جن کا دشمن اپنے استعمال کے لئے فائدہ اٹھا سکتا ہے۔
ان کے خلاف مقدمہ دفعہ 505 کے تحت درج کیا گیا ہے جس کے تحت درج مقدمے میں سات سال قید کی سزا سنائی جا سکتی ہے۔ یاد رہے کہ صحافی بلال فاروقی کو ان کے گھر سے اٹھایا گیا۔ جب کہ ان کا فون لینے کے لئے ایک گھنٹے بعد پولیس اہلکار آئے تو انہوں نے ان کی اہلیہ کو اس کی گرفتاری کے بارے میں بتایا۔ رات گئے انہیں رہا کر دیا گیا۔
اب ذرا آپ کو یاد کرواتے چلیں کہ وزیر اعظم صاحب جن پر کی گئی تنقید کو ان کی شان میں گستاخی قرار دے کر ابصار عالم کے خلاف مقدمہ قائم کیا گیا ہے اور اس میں جو قصیدے افواجِ پاکستان کے بارے میں کہے گئے ہیں، خود ماضی میں اسی فوج کے بارے میں کیا کہتے پائے گئے ہیں۔
یہاں تک کہ وہ ماضی میں پاکستانی فوج پر پاکستان کے مفادات کے خلاف امریکہ کی مدد کرنے کا الزام بھی جلسے میں کھڑے ہو کر لگا چکے ہیں۔ ذرا ملاحظہ فرمائیے:
https://twitter.com/SengeHSering/status/1069433043188883456
جن صاحب کی جانب سے ابصار عالم کے خلاف مقدمہ درج کروایا گیا ہے، نہ جانے انہیں وزیر اعظم صاحب کے پاک افواج کے بارے میں ان خیالات کا علم تھا یا نہیں۔ اگر تھا تو کیا وہ اب عمران خان پر بھی افواجِ پاکستان کے خلاف دشمن کی مدد کرنے کا مقدمہ درج کروائیں گے؟
بلال فاروقی پر الزام لگایا گیا ہے کہ ان کی ٹوئیٹس میں ایسی باتیں تھیں جن کا استعمال دشمن پاک فوج کے خلاف کر سکتا ہے۔ یعنی دشمن پاک فوج کے خلاف بلال فاروقی کی ٹوئیٹس استعمال کرنے لگا ہے اب؟ اتنے مجبور و بے بس و لاچار دشمن کو تو ویسے ہی معاف کر دینا چاہیے جس کا ہتھیار ایک صحافی کی کچھ ٹوئیٹس ہوں۔ اگر یہ بھی قومی سلامتی کے لئے خطرہ ہیں تو شاید یہ عمارت انتہائی کمزور بنیادوں پر کھڑی کی جا رہی ہے۔
حقیقت یہ ہے کہ پاکستان تحریک انصاف کو تنقید سننے کی عادت نہیں ہے۔ عمران خان صاحب خود کہہ چکے ہیں کہ میڈیا نہ ہوتا تو تحریک انصاف نہ ہوتی۔ اس میڈیا نے بہت پیار محبت سے اس جماعت کو پال پوس کر بڑا کیا ہے۔ قریب ایک دہائی تک میڈیا نے اس جماعت اور اس کے سربراہ کی ہر خامی کی پردہ پوشی کی ہے۔ اس کے ناز نخرے اٹھائے ہیں۔ ان کی ناراضی کے ڈر سے لوگوں کو نوکریوں سے نکالا ہے۔ دیگر جماعتیں جانبداری کا الزام لگاتیں تو ان کو ناراض کر دیتے مگر عمران خان صاحب کی ذات پر حرف نہیں آنے دیا۔ اس کے لئے نقصان بھی اٹھایا مگر ہر غم ہنس کے سہا۔ یوں کہا جائے کہ پاکستان کے میڈیا نے خونِ جگر دے کر پی ٹی آئی کے پودے کی آبیاری کی ہے تو غلط نہ ہوگا۔ لیکن جب یوں نازوں پلے راج دلارے کی کسی بات پر تنقید ہو تو اس کا بھڑک اٹھنا فطری ہے۔ 1970 میں ریلیز ہونے والی رنگیلا صاحب کی فلم ’رنگیلا‘ میں انہیں ان کی والدہ ’سب توں سوہنیا‘ کہا کرتی تھیں۔ انہیں اپنے حسن کا اتنا یقین ہو گیا کہ جب انہیں فلم کی ہیروئن نشو نے ٹھکرایا تو وہ اسے برداشت نہ کر سکے۔ اب کیا کیا جائے کہ گذشتہ ایک دہائی سے زیادہ کے عرصے میں رنگیلا صاحب کی ماں کا کردار ہمارا میڈیا نبھاتا رہا ہے اور ’سب توں ہینڈسم‘ کو وزیر اعظم کے عہدے تک لے جانے میں best actor in a supporting role کے ایوارڈ کا مستحق بھی ہے۔ اسے اس ملک کی بدقسمتی ہی کہا جا سکتا ہے فلم ’رنگیلا‘ کی طرح یہ فلم کامیاب نہیں ہو سکی اور اب اس ناکامی کا سارا ملبہ اس سپورٹنگ ایکٹر پر ڈالا جا رہا ہے۔
اسی لئے تو کبھی کسی پر غداری کا مقدمہ درج کروایا جاتا ہے تو کسی پر ریاست مخالف اقدامات کا۔ کسی کسی کو تو غائب بھی کر دیا جاتا ہے۔ لیکن تاریخ گواہ ہے کہ ان چیزوں سے حکومتوں کی کارکردگی میں بہتری نہیں، مزید ابتری آیا کرتی ہے۔ صحافی اپنی آواز بلند کرتے رہتے ہیں۔ دو، چار، پانچ، دس کو عدالتوں میں گھسیٹنے، تھانوں میں بند کرنے اور شمالی علاقہ جات کی سیر کروانے سے کسی کی انا کی تسکین تو ممکن ہے، عوام میں مقبولیت کی کنجی لیکن کارکردگی ہی رہتی ہے۔ جب تک وہ نہیں ہوگی، آوازیں دبانے سے آوازیں اٹھنے کا سلسلہ بند نہیں ہوگا۔