جج صاحب، احد چیمہ کی زندگی کے دو سال کون واپس کرے گا؟

جج صاحب، احد چیمہ کی زندگی کے دو سال کون واپس کرے گا؟
ملکی سیاسی میدان میں تحریک اںصاف کی لانچنگ کے بعد ہر جگہ احتساب احتساب کے نعرے گونجے۔ تحریک انصاف کو ملکی مسائل کا آخری حل سمجھنے والی آج کی نوجوان نسل سمجھتی ہے کہ ملکی تاریخ میں پہلی بار بلا تفریق احتساب ہو رہا ہے۔ تاہم، پاکستانی سیاسی تاریخ پر کسی بھی کتاب کے چند پہلے ہی صفحات پڑھے جائیں تو معلوم ہوتا ہے کہ لیاقت علی خان کے پروڈا سے لے کر ایوبی احتساب اور پھر بھٹو صاحب کے منطق سے عاری احتسابی پلان تک احتساب کا یہ چورن دبا کر بیچا گیا۔ پھر اس کو بھیانک ترین شکل ضیاالحق نے دی۔ جس نے احتساب کے ساتھ اسلام کو بھی گڈ مڈ کر دیا۔ نواز شریف حکومتوں کے سیف الرحمان مارکہ احتساب سیل تو آج بھی مثال ہیں۔ اور بے نظیر صاحبہ نے بھی احتساب پر تکیہ ضرور کیا، وہ علیحدہ بات ہے کہ ان کی اپنی حکومت کے ہی اتنے سکینڈل بنے کہ ان کے لئےاحتساب کا نعرہ کچھ زیادہ موزوں نہیں رہا۔

مشرفی نیب نے بھی احتساب کو اپنی جانب سے  مشرف بہ تکمیل کیا اور وہی نیب اب وزیر اعظم عمران خان کی ایک مسکراہٹ کی منتظر رہتی ہے۔ لیکن نوجوان نسل کو شاید یہ معلوم کرنے کی زحمت نہ ہوئی ہو کہ اس احتساب کے نعرے کی چھتر چھایا کے نیچے لیاقت علی خان سے لے کر عمران خان تک صرف اور صرف سیاسی قتل و غارت گری ہوئی۔ جس کے نتیجے میں ملکی معیشت، سیاست اور سب سے بڑھ کر قانون اتنے کمزور ہو گئے کہ وہ ایک صحت مند معاشرے کی ضمانت دینے سے اب قاصر ہیں۔ لیکن احتساب کو جس قدر بے معنی، تباہ کن اور متنازع عمران حکومت اور ان کے لانے والوں نے بنایا شاید ہی کسی نے بنایا ہو۔

گذشتہ روز اپنے پروگرام خبر سے آگے میں رضا رومی نے اس امر کی کچھ یوں تشریح کی کہ اب احتساب صرف یہ بنا دیا گیا ہے کہ نواز شریف چور ہے اور زرداری چور ہے۔ احتساب کی شناخت کو اس عمل کو ذلیل کر دیا گیا ہے۔

ابھی یہی الفاظ ادا ہی ہوئے تھے کہ معلوم ہوا ہے کہ سابق ڈی جی لاہور ڈویلپمنٹ اتھارٹی احد چیمہ ایل ڈی اے سٹی کیس میں بری ہو گئے۔ جس کی تفصیل کے مطابق احتساب عدالت نے احد چیمہ سمیت 10 ملزمان کو ایل ڈی اے سٹی کرپشن کیس میں بری کر دیا اور ملزمان کے خلاف تفتیش بند کرنے کی درخواست بھی منظور کر لی۔

احتساب عدالت کے جج جواد الحسن نے نیب کی تفتیش بند کرنے کی درخواست بھی منظور کر لی۔

اب اس حوالے سے ملک کے معروف صحافی اور کالم نگار جاوید چوہدری کے کالم کا یہ اقتباس دیکھیے۔ وہ لکھتے ہیں کہ نیب کے ظلم کی بدترین مثال احد چیمہ ہیں، یہ شخص ن لیگ کی حکومت کا اصل چیمپیئن تھا، یہ اگر ملک میں پہلی میٹرو نہ بناتا یا یہ ریکارڈ مدت میں بجلی کے پانچ ہزار میگا واٹ کے پاور پلانٹس نہ لگاتا تو میاں برادران کی حکومت لوڈ شیڈنگ میں غائب ہو جاتی۔

عمران خان کے اپنے لوگ کہتے ہیں ہمارے پاس اگر ایک احد چیمہ ہوتا تو ہم تاریخ کی کامیاب ترین حکومت ہوتے لیکن نیب نے اس شخص کے ساتھ کیا سلوک کیا؟ اس نے احد چیمہ کو عبرت کا نشان بنا کر رکھ دیا، یہ 29 ماہ سے کیمپ جیل لاہور میں سڑ رہا ہے اور کوئی جج اس کی ضمانت کی درخواست سننے کے لئے تیار نہیں۔ اس کا یہ نتیجہ نکلا آج کوئی بیورو کریٹ کسی فائل پر دستخط کرنے کے لئے تیار نہیں، آپ مانیں یا نہ مانیں لیکن یہ حقیقت ہے پشاور کی میٹرو بھی احد چیمہ کی وجہ سے مکمل نہیں ہو رہی، کیوں؟

کیوں کہ یہ منصوبہ جس دن مکمل ہو گیا اس دن پشاور کے دو درجن بیوروکریٹ اندر ہو جائیں گے لہٰذا مسافر کی چیف جسٹس سپریم کورٹ سے درخواست ہے آپ اب احد چیمہ پر بھی رحم فرما دیں، اس شخص نے اپنی پرفارمنس کی قیمت اپنی اوقات سے زیادہ ادا کر دی ہے‘‘۔

اب جب کہ بقول جاوید چوہدری کے، ان پر رحم ہو چکا ہے، ابھی تک یہ واضح نہیں کہ وہ جیل سے نکل پائیں گے یا نہیں کیونکہ ان پر مزید کیسز ایک ساتھ بنا دیے گئے ہیں۔ لیکن سوال یہ ہے کہ احد چیمہ جیسے قابل افسر کے وہ ماہ و سال جو انہوں نے ان ناکردہ گناہوں کے عوض اسیری میں ضائع کر دیے وہ ان کو کون واپس دے گا؟ کوئی عدالت؟ خان خاناں کی حکومت؟ نیب؟ یا ریاست؟ یا پھر احد چیمہ بھی چپ کر کے سر پھینک کر آگے چل دیں؟