چند روز قبل لاہور موٹروے پر ایک خاتون کے ساتھ اجتماعی جنسی زیادتی کا واقعہ پیش آیا، جس کے بعد سوالات کا ایک نہ ختم ہونے والا سلسلہ شروع ہوا۔ اس واقعے نے خواتین کو یہ سوچنے پر مجبور کیا کہ کیا واقع پاکستانی معاشرہ خواتین کے لئے محفوظ نہیں؟ اس سوال کے جواب میں چند ایک حقوق نسواں کے لئے سرگرم سماجی اداروں سے تعلق رکھنے والی خواتین نے کہا کہ یہ معاشرہ ذہنی طور پر مفلوج اور ہوس کی بھینٹ چڑھ چکا ہے زیادتی کے بڑھتے ہوئی واقعات اسی بات کی تو ترجمانی کر رہے ہیں۔
اس واقعے کے حوالے سے اکثر لوگوں کا کہنا تھا کہ مجرموں کو سخت سے سخت سزا دے کر ان کو سرعام پھانسی پر لٹکا دینا چاہیے۔ یہاں سوال یہ بنتا ہے کہ کیا کڑی سے کڑی سزا ہی اس قسم کی حادثات کی روک تھام کا واحد حل ہے؟ جو معاشرہ پہلے سے ہی ذہنی شدت پسندی کا شکار ہو اس معاشرے میں مجرم کو سرعام سزا دینے سے کٹھور پن اور سنگ دلی اور افزائش پائے گی۔
خاتون جو زندگی عطا کرتی ہے، جس کے دم سے ہی یہ جہان روشن ہے، خاتون ہر لحاظ سے اور ہر صورت میں قابلِ احترام ہے، افسوس کی بات مگر یہ ہے کہ حوا کی بیٹی کو ہم نے کیا سے کیا بنا دیا ہے۔ ہمارے معاشرے میں خاتون کو محض ایک جنس بازار کے طور پر دیکھا جاتا ہے۔ راہ چلتی خاتون کو ہزار آنکھیں گورتی ہیں۔ ہم ایک قوم، گروہ، سماج کے طور پر مکمل طور پر ناکام ہو چکے ہیں۔ ہماری ماں، بیٹی، بہن کو جو تحفظ میسر ہونا چاہیے، افسوس کہ ہم نہیں دے سکے۔ معاشرتی بگاڑ اور عدم مساوات ہماری وہ کمزوریاں رہی ہیں جن کو شاید ہی ہم کبھی درست کر سکیں۔
مسئلہ نظام کا بھی ہے اور انفرادی بھی۔ فرد کی حیثیت سے ہماری یہ ذمہ داری بنتی ہے کہ اپنے ارد گرد غلیظ ماحول کو پروان چڑھنے سے روکیں جب کہ ملکی نظام کا حق اپنے شہریوں کو تحفظ فراہم کرنے کے ساتھ ساتھ بنیادی تعلیمی ڈھانچے میں ایسا نصاب تشکیل دینا ہے جہاں ایک کمسن بچے یا بچی کو اپنے ارد گرد کے ماحول کو پہچاننے میں مدد ملے۔
اس بیمار معاشرے کے صرف اسی ایک پہلو سے اندازہ لگائیے کہ جب کسی خاتون کو جنسی زیادتی کا نشانہ بنایا جاتا ہے تو تمام تر الزامات اور ذمہ داری اُسی خاتون پر رکھ دی جاتی ہے، کبھی اُنہیں گھر سے اکیلے نکلنے کا جواز بنا کر ذمہ دار ٹھہرایا جاتا ہے تو کبھی ’لباس‘ کو اُن کے استحصال کی وجہ قرار دیا جاتا ہے۔
جس معاشرے میں ایسی سوچ پروان چڑھ رہی ہو، اس کا ترقی کرنا ناممکن ہے۔