میڈیا ڈیولپمنٹ اتھارٹی کے خلاف صحافیوں کا احتجاج، پارلیمنٹ کے سامنے دھرنا دے دیا

07:44 AM, 13 Sep, 2021

نیا دور
صحافیوں نے پاکستان تحریک انصاف (پی ٹی آئی) کی حکومت کی جانب سخت قوانین پر مشتمل پاکستان میڈیا ڈیولپمنٹ اتھارٹی (پی ایم ڈی اے) کو مسترد کرتے ہوئے پارلیمنٹ کے سامنے دھرنا دے دیا۔

اسلام آباد میں ملک بھر سے صحافی تنظیموں کے عہدیداروں اور کارکنوں نے میڈیا ڈیولپمنٹ اتھارٹی کے قیام کے خلاف احتجاج کیا اور پارلیمنٹ کے سامنے پہنچ کر دھرنا دے دیا ہے۔

صحافیوں کے احتجاج اور دھرنے میں اپوزیشن سیاسی جماعتوں کے رہنماؤں نے بھی شرکت کی اور خطاب کیا، اس کے علاوہ وکلا، برطرف سرکاری ملازمین، انسانی حقوق کے کارکن اور سول سوسائٹی کے نمائندے بھی دھرنے میں شریک ہیں۔

میڈیا ڈیولپمنٹ اتھارٹی کے قیام اور آزادی اظہار رائے کے خلاف حکومتی پالیسیوں پر صحافیوں، برطرف سرکاری ملازمین، وکلا اور انسانی حقوق کے کارکنوں نے اسلام آباد پریس کلب سے پارلیمنٹ ہاؤس تک ریلی نکالی۔ مظاہرے کے شرکا نے حکومت کی پالیسیوں کو مزدور دشمن قرار دیتے ہوئے حکومت مخالف نعرے بازی کی۔

احتجاج میں شامل مظاہرین سے اپوزیشن جماعتوں کے قائدین نے خطاب کیا اور حکومت کی یک طرفہ پالیسیوں پر شدید تنقید کی۔ علاوہ ازیں مظاہرے کے  شرکا نے متنازع قوانین واپس لینے تک دھرنا جاری رکھنے کا اعلان کیا۔

خیال رہے کہ صحافی تنظیموں کے رہنماؤں نے پیر کو پارلیمنٹ کے مشترکہ اجلاس سے صدر مملکت کے خطاب کے دوران بھی احتجاج کرنے کا اعلان کر رکھا ہے۔

اس سے قبل ملک بھر سے آئے ہوئے صحافیوں نے حکومت کی جانب سے پیش کرنے والے نئے قانون پاکستان میڈیا ڈیولپمنٹ اتھارٹی (پی ایم ڈی اے) کو مسترد کرتے ہوئے نیشنل پریس کلب سے ریلی نکالتے ہوئے پارلیمنٹ کے سامنے دھرنا دے دیا۔یہ دھرنا ایک ایسے وقت میں کیا جارہا ہے جب صدر پاکستان عارف علوی نے دونوں ایوانوں کا مشترکہ اجلاس بلایا ہے۔

ریلی کی قیادت سینئیر صحافی مظہر عباس ،ناصر زیدی افضل بٹ، شکیل انجم انور رضا اور عامر سجاد سید نے کی ، ریلی میں اپوزیشن سیاسی جماعتوں کے رہنما شاہد خاقان عباسی، فرحت اﷲ بابر، شازیہ مری ، طاہر بزنجو ،سینیٹر محمد اکرم، شاہدہ اختر علی دیگر جماعتوں کے رہنماؤں نے شرکت کی۔

پاکستان مسلم لیگ ن کے رہنماء شاہد خاقان عباسی نےصحافیوں کی ریلی سے خطاب کرتے ہوئے کہا کہ کسی مارشل لا حکومت میں بھی صحافت کو دبانے کے لیے ایسے حربے استعمال نہیں کیے گئے جو موجود حکومت منصوبہ بندی کر رہی ہے اور صحافت کی آزادی کوئی آپشن نہیں بلکہ عوام کا آئینی حق ہے ۔ انھوں نے حکومت کی جانب سے نئے قانون پر تنقید کرتے ہوئے کہا کہ کیا پیمرا کافی نہیں تھا جو ایک اور قانون نافذ کیا جارہا ہے۔

شاہد حاقان عباسی نے مزید کہا کہ ایوب خان سے لے کر پرویز مشرف تک لوگوں نے یہ کوشش کی کہ اظہار رائے کی آزادی اور صحافت کو دبایا جائے لیکن یہ پہلی نام نہاد جمہوری حکومت ہے جو آج صحافت کو دبانے کی پوری طرح اور ہر طریقے سے کوشش کر رہی ہے۔

حال ہی میں جیو نیوز کے مشہور پروگرام کیپیٹل ٹاک سے جبری طور پر غائب کرنے والے صحافی حامد میر نے اپنے خطاب میں کہا کہ کہ اللہ بادشاہ ہے ہم کسی سے نہیں ڈرتے آئین میں دیئے گئے گئے حقوق کا تحفظ کرنا جانتے ہیں۔ حامد میر نے مزید کہا کہ پابندیاں ہمارے لیے نئی بات نہیں ہیں طویل عرصے سے اظہار خیال کے لئے جدوجہد کر رہے ہیں اور شاید کرتے رہنا ہماری مجبوری ہے ۔ حامد میر نے اپوزیشن جماعتوں پر تنقید کرتے ہوئے کہا کہ اپوزیشن سے ہماری کوئی توقعات نہیں ہیں لیکن عوام سے تو ہم توقع رکھتے ہیں کہ وہ ہمیں اکیلا نہیں چھوڑیں گے۔

سینئر صحافی مطیع اللہ جان نےوزیر اطلاعات فواد چودھری پر تنقید کرتے ہوئے کہا کہ اب تو وزیر اطلاعات کو پتہ چل گیا ہوگا کہ ناصر زیدی کون ہے؟ مطیع اللہ جان نے کہا کہ صحافی پاکستان کے 22کروڑ عوام کی آنکھیں کان اور زبان ہے ہے،صحافی ڈٹے ہوئے ہیں اور ڈٹے رہیں گے کیونکہ خوشحالی کل بھی ہماری منزل نہیں تھی اور آج بھی ہماری منزل نہیں ہے شاید بھو کے رہنا ہمارا مقدر ہے اور ہم اس دباؤ کا ڈٹ کر مقابلہ کریں گے۔

پی ایف یوجے کے سیکریٹری جنرل ناصر زیدی نے کہا کہ یہ تحریک اس وقت تک جاری رہے گی جب تک میڈیا آزاد نہیں ہوجاتا۔ پی ایم ڈی اے کالا قانون اسے حکومت کو واپس لینا پڑے گا۔

پاکستان پیپلز پارٹی کے رہنماء فرحت اللہ بابر نے دھرنے سے خطاب کرتے ہوئے کہا کہ پی ڈی ایم اے قانون اور الیکٹرانک ووٹنگ مشین ملک میں 2023 کا الیکشن چوری کرنے کا بڑا منصوبہ ہے اور اسی سلسلے میں نئے قانون کو لایا جارہا ہے تاکہ جو بھی حکومت پر میڈیا اور سوشل میڈیا پر تنقید کریں ان کا گلہ دبایا جائے۔ انھوں نے مزید کہا کہ صحافیوں نے بدترین امریتوں کا مقابلہ کیا ہے اور موجودہ نام نہاد ہائبریڈ حکومت کا بھی مقابلہ کریگی اور آئینی حقوق کو حاصل کرتی رہے گی۔

دھرنے سے خطاب کرتے ہوئے ایوارڈ یافتہ سینئر صحافی عاصمہ شیرازی نے کہا کہ ایک امر ہوتا تھا جن کا نام پرویز شرف تھا وہ اپنی دہشت سے ہمیں خاموش کرنا چاہتا تھا مگر وہ کامیاب نہیں ہوا اج وہ امر اس سرزمین پر قدم نہیں رکھ سکتا مگر ہم اج بھی کھڑے ہیں اور اپنی سرزمین سے بات کررہے ہیں۔ عاصمہ شیرازی نے مزید کہا کہ صحافیوں پر گھیرا مزید تنگ ہوگا اور اپ حالات مزید سخت ہونگے لیکن جو سچ اور حق کے ساتھ کھڑا رہیگا تاریخ اُن کو یاد رکھیں گی اور وہ تاریخ میں ہمیشہ کے لئے یاد رکھا جائے گا لیکن حکومت وقت سن لیں سچ اور حق کا یہ سفر جاری رہیگا اپ ہمارے قلم، کیمرے اور مائک نہیں چھین سکتے اور نہ ہی ہمیں خاموش کرسکتے ہیں ۔

یاد رہے کہ حکومت نے میڈیا کو کنٹرول کرنے کے لیے پاکستان ڈیولپمنٹ اتھارٹی کے نام سے نیا قانون متعارف کرنے کا اعلان کیا تھا، جس میں میڈیا اداروں اور صحافیوں کے حوالے سے سخت قوانین تجویز کیے گئے ہیں۔

گزشتہ ماہ وفاقی وزیر اطلاعات و نشریات فواد چوہدری نے کہا تھا کہ مجوزہ پاکستان میڈیا ڈیولپمنٹ اتھارٹی (پی ایم ڈی اے) کے تحت ٹی وی چینلز پر 25 کروڑ روپے تک جرمانہ عائد کیا جا سکے گا جہاں اس سے قبل موجودہ قوانین کے تحت چینلز پر 10 لاکھ روپے تک جرمانہ ہوتا ہے۔

ڈیجیٹل براڈ کاسٹرز کے ساتھ ایک نشست میں وفاقی وزیر نے نشاندہی کی تھی کہ پاکستان الیکٹرانک میڈیا ریگولیٹری اتھارٹی (پیمرا) ایک امیر ادارہ تھا لیکن بدقسمتی سے اس نے اپنے قیام سے اب تک صحافیوں کی تربیت، تحقیق اور ڈیجیٹل میڈیا پر ایک پیسہ بھی خرچ نہیں کیا۔

انہوں نے کہا تھا کہ اس وقت پاکستان میں میڈیا کو کنٹرول کرنے والے سات قوانین موجود ہیں، سوشل میڈیا کو پاکستان ٹیلی کمیونیکیشن اتھارٹی (پی ٹی اے) کے ذریعے کنٹرول کیا جاتا ہے، پریس کا انتظام پریس کونسل کے پاس ہے، الیکٹرانک میڈیا کو پیمرا دیکھتا ہے، لیبر ریگولیشنز پر عمل درآمد کو ٹریبیونل برائے اخبارات ملازمین (آئی ٹی این ای) دیکھتا ہے جبکہ آڈٹ بیورو آف سرکولیشن(اے بی سی) اخبار کی رجسٹریشن کے امور پر نظر رکھتا ہے۔

وفاقی وزیر نے واضح طور پر کہا تھا کہ تمام قوانین کو ختم کیا جا رہا ہے تاکہ ان کی جگہ ایک اتھارٹی یعنی پی ایم ڈی اے لے سکے۔ فواد چوہدری نے مزید کہا تھا کہ مجوزہ قانون میں مجرمانہ ذمہ داری کی کوئی گنجائش نہیں ہے لیکن اس کے تحت 25 کروڑ روپے تک جرمانہ عائد کیا جا سکے گا۔

دوسری جانب میڈیا انڈسٹری کی تمام نمائندہ تنظیموں اور ایسوسی ایشنز نے مجوزہ پاکستان میڈیا ڈیولپمنٹ اتھارٹی (پی ایم ڈی اے) کو مسترد کرتے ہوئے اس کو کالا قانون قرار دے دیا تھا۔

آل پاکستان نیوز پیپرز سوسائٹی (اے پی این ایس)، کونسل آف پاکستان نیوز پیپر ایڈیٹرز (سی پی این ای)، پاکستان براڈکاسٹرز ایسوسی ایشن (پی بی اے)، پاکستان فیڈرل یونین آف جرنلسٹس (پی ایف یو جے) اور ایسوسی ایشن آف الیکٹرانک میڈیا ایڈیٹرز اینڈ نیوز ڈائریکٹرز (اے ای ایم ای این ڈی) نے اس حوالے سے مشترکہ بیان جاری کیا تھا۔

مشترکہ بیان میں قانون پر تنقید کی گئی تھی اور ایک سے زیادہ مرکزی ادارے کی تشکیل کے ذریعے میڈیا کے تمام حصوں پر ریاستی کنٹرول نافذ کرنے کی طرف اٹھایا جانے والا قدم قرار دیا گیا تھا اور کہا تھا کہ بظاہر پی ایم ڈی اے کا مقصد آزادی اظہار اور پریس کو دبانا ہے۔

ان کا کہنا تھا کہ یہ قانون ایک پلیٹ فارم سے میڈیا پر وفاقی حکومت کا کنٹرول سخت کرنے کی کوشش ہے لیکن اس میں اس حقیقت کو نظر انداز کیا گیا کہ پرنٹ، الیکٹرانک اور سوشل میڈیا الگ الگ حصے ہیں اور ان کی اپنی الگ خصوصیات ہیں۔

انہوں نے کہا تھا کہ ایک ادارے کے ذریعے تمام اقسام کے میڈیا اداروں کو ریاستی کنٹرول میں لانے کا اقدام آمرانہ سوچ کی نشاندہی کرتا ہے جس کی جمہوری طور پر منتخب حکومت میں کوئی گنجائش نہیں ہے۔

میڈیا انڈسٹری کی نمائندہ تنظیموں نے قومی اسمبلی اور سینیٹ کی قائمہ کمیٹی برائے اطلاعات کے اراکین پر زور دیا تھا کہ وہ مجودہ ادارے کو مکمل طور پر مسترد کردیں۔ حکومت کی تجویز کے مطابق پاکستان میڈیا ڈیولپمنٹ اتھارٹی ملک میں پرنٹ، براڈکاسٹ اور ڈیجیٹل میڈیا ریگولیشن کی مکمل طور پر ذمہ دار ہوگی۔
مزیدخبریں