اللہ والے! جن سے اللہ ہوتا ہے راضی

01:06 PM, 14 Apr, 2020

احمد علی کورار
گزشتہ روز میں بھٹو صاحب کی سندھی زبان میں کی گئی تقریر سن رہا تھا جس میں وہ ایک فقیر کا واقعہ بتا رہے تھےکہ تخلیق پاکستان سے قبل لاڑکانہ سے ہم بذریعہ ٹرین بمبئی جاتے تھے اس وقت لوگ جمعہ کے دن خیرات کا اہتمام کرتے تھے ہم بھی اسی روز خیرات کرتے تھے ایک فقیر اسی روز ہمارے ہاں خیرات کے لیے آتا تھا ایک دن اس فقیر نے مجھ سے کہا آج ٹرین لاڑکانہ سے بمبئی نہیں جائے گی میں اسے اپنی روحانی طاقت سے جانے نہیں دونگا میں اس وقت چھوٹا تھا اس بات کو سچ سمجھ بیٹھا اور اپنے والد سے کہا کہ فقیر کہ رہا ہے میں ٹرین کو جانے نہیں دونگا ہم کیسے جائیں گے پھر؟ والد صاحب نے کہا کہ ایسی بات نہیں ہے۔میں پریشان تھا میں پھر فقیر کے پاس گیا اسے کہا کہ ایسے نہیں کرو ٹرین کو جانے دو اس نے کہا اچھا ٹھیک ہے ایسے کریں آپ ایک سو روپے لائیں میں پھر باز آجاوں گا اس وقت ایک سو روپے بڑی رقم تھی میں دوڑا دوڑا والد صاحب کے پاس گیا اور مطلوبہ رقم کا مطالبہ کیا کہ وہ یہ رقم فقیر کو دیں گے پھر وہ ٹرین کو جانے دیں گے۔والد نے مجھے سمجھایا ان میں کوئی روحانی طاقت نہیں یہ ٹھگ ہے۔ٹرین تو اس دن نہیں رکی لیکن اس ٹھگ کی زبان آمین ہوگئی پھر ٹرینیں ٹائم تک نہیں پہنچیں اور آج بھی یہی صورتحال ہے۔

خیر! مجھے اپنا ریل کا سفر یاد آیا۔ شاذ ہی ٹرین میں سفر کرنے کا اتفاق ہوتا ہےٹرین کھچا کھچ بھری ہوئی تھی، بیٹھنے کے لیے جگہ کا کوئی بندوبست نہیں ہو پا رہا تھا لیکن کسی بوگی میں بیٹھے باریش حلیہ اور وضع قطع سے مذہبی شخص نے بیٹھنے کی جگہ دی۔ میں نے ان کا شکریہ ادا کیا اور بیٹھ گیا۔ تھوڑی دیر رسماً علیک سلیک ہوئی میرے دریافت کرنے پر اس نے مجھے بتایا کہ میں فلاں محکمہ میں ڈی جی ہوں میں نے کہا کہ سر پھر آپ کے پا س تو سرکاری گاڑی بھی ہوگی آپ اس پہ سفر نہیں کرتے؟ اس نے کہا ہاں ہے لیکن میں ذاتی کام کے لیے استعمال نہیں کرتا۔ پھر میں نے پوچھا کہ آپ کے پاس اپنی ذاتی گاڑی بھی نہیں؟ اس نے جوباً کہا نہیں ہے۔ باتوں باتوں میں اس نے بتایا کہ کاشتکاری کے لیے تھوڑی سی زمین بھی ہے لیکن اس نے اپنی آمدنی کا 50 فی صد غریبوں کی امداد کے لیے وقف کر رکھا ہے۔ اپنی آدھی تنخواہ بھی ہر ماہ محلے کے غریب ونادار خاندانوں میں بانٹ دیتا ہوں۔ بس رب کا شکر ہے جو بچتا ہے اس میں گزارا ہو جاتا ہے۔اس نے کہا کہ میں یہ آپ کو بتانا اس لیے مقصود سمجھتا ہوں۔

بیٹا!دنیا میں انسان کا اصل امتحاں ہی یہی ہے، مخلوق خدا کی خدمت کرنا یہ دنیا عارضی ہے۔ دولت شہرت سب دھرا کا دھرا رہ جائے گا۔ خدمت خلق سے رب تعالی کی خوشنودی حاصل ہوتی ہے۔جتنا ہو سکے غریبوں اور ناداروں کی امداد کریں۔واقعی مخلوق خدا کی خدمت ہی زندگی کا اصل سرمایہ ہے۔
چند ماہ قبل ہمارے ایک دیرینہ دوست نے Supporting the poor کے نام سے ایک ٹرسٹ کا آغاز کیا تھا مشاورت کے بعد یہ طے ہوا ہر دوست ہر ماہ قلیل سی رقم ٹرسٹ کے لیے دے گا گا جس سے ہم کسی غریب لاچار بیمار کو عطیہ کریں۔

رفتہ رفتہ اس سلسلے کو بڑھایا اور غریبوں اور لاچاروں کی امداد کا سلسلہ شروع ہوا اور اب بھی جاری وساری ہے اور انشااللہ جاری رہے گا۔ مشکل کی اس گھڑی میں جب کورونا وائرس نے نظام زندگی کو مفلوج کردیا ہے غریب دیہاڑی دار گھروں میں مقید ہو چکے ہیں وہ ہماری امداد کے منتظر ہیں لیکن یہ ٹرسٹ ہمہ وقت غریبوں کی امداد میں مصروف ہے دوست احباب دل کھول کر امداد کر رہے ہیں۔مزید اس ٹرسٹ کے لیے تعاون کی ضرورت ہے کیونکہ اس وقت کئی غریب گھرانے فاقوں پہ مجبور ہیں یہی وقت ہے کہ خدمت خلق کا مخیر حضرات سے گزارش ہے کہ Supporting the poor  ٹرسٹ میں اپنا حصہ ڈالیں۔
بھٹو صاحب والی متذکرہ بات بتانے کا مقصد یہ تھا کہ ضروری نہیں اللہ والے جبے اور چوغے کی صورت میں ہوں۔دراصل اللہ والے وہ ہوتے جنھیں دیکھ کر اللہ یاد آجائے۔پھر انھیں فقیر کا لیبل لگانے کی ضروت نہیں ہوتی۔

 
مزیدخبریں