پاکستان میں کورونا وائرس کا پہلا مثبت کیس 26 فروری،2020 کو رپورٹ ہوا۔جس کے بعد آہستہ آہستہ پہلے سندھ، پھر پورے ملک میں یہ وائرس پھیلا۔ وبا کے زیادہ پھیلاو کو روکنے کے پیش نظر تمام صوبائی حکومتوں اور وفاقی حکومت کی طرف سے لاک ڈاؤن کے اعلانات کئے گئے۔ اس لاک ڈاؤن نے جہاں کاروباری سرگرمیوں کو روک دیا وہیں تعلیمی عمل کو بھی فل سٹاپ لگ گیا۔ اس لاک ڈاؤن میں آن لائن ذرائع کے استعمال میں بہت زیادہ تیزی دیکھنے کو آئی ہے بعض مبصرین اس وقت کو ڈیجیٹل دنیا کا عروج بھی کہہ رہے ہیں اسی طرح تعلیمی سرگرمیاں بھی آن لائن ذرائع پر منتقل ہوگئیں ہیں۔
وفاقی وزیر تعلیم شفقت محمود نے 13 مارچ، 2020 کی شام کو سماجی رابطہ کی ویب سائیٹ ٹویٹر پر پیغام جاری کرتے ہوئے تعلیمی اداروں کو 5 اپریل تک بند کرنے کا اعلان کیا اور ساتھ ہی یہ بھی بتایا کہ 27 مارچ کو ایک بار پھر میٹنگ رکھی جائے گی اور حالات کو دیکھ کر فیصلہ کیا جائے گا کہ تعلیمی ادارے 5 اپریل کو کھولے جائیں یا اس میں مزید توسیع کرنی ہے۔ 26 مارچ کو ایک مرتبہ پھر وفاقی حکومت نے تمام تعلیمی اداروں بشمول مدارس کو 31 مئی تک سمر بریک(گرمیوں کی چھٹیاں) کہہ کر بند کرنے کا اعلان کیا۔ اور ساتھ میں یہ بھی تاکید کی کہ یونیورسٹیاں آن لائن ایجوکیشن کے ذریعے اپنی تعلیمی سرگرمیاں جاری رکھیں جبکہ سکول کے طلباء و طالبات کے لئے پی ٹی وی پر کلاسز شروع کئے جائیں گے ۔ ہائیر ایجوکیشن کمیشن پاکستان (جو کہ سرکاری سطح پر جامعات کا نمائندہ ادارہ ہے) نے اپنے نوٹیفیکشن میں یونیورسٹیز کو ہدایات جاری کیں کہ جن جامعات کا لرننگ مینجمنٹ سسٹم (LMS ) فعال ہے وہ آن لائن کلاسز کا آغاز کردیں تاکہ اسٹوڈنٹس کے تعلیمی سال کے ضیاع کو بچایا جاسکے ۔اور جن جامعات کا LMS فعال نہیں ہے وہ 31 مئی تک اس کو تیار رکھیں اور یکم جون سے کلاسز کا آغاز کردیں۔
آن لائن کلاسز کے اجراء کے اقدام کو جہاں عوام نے سراہا وہیں اس سسٹم نے کئی سوالات اور مسائل کو بھی جنم دیا۔ پاکستان جیسے ترقی پذیر ملک میں اس حوالے سے سہولیات کا فقدان ہے کیونکہ یہاں انفارمیشن ٹیکنالوجی پر کبھی بھی توجہ نہیں دی گئی ہے مزید آن لائن ایجوکیشن کے لئے یوزر کے پاس لیپ ٹاپ یا انڈرائید فون کا ہونا ضروری ہے اس کے علاوہ انٹرنیٹ کی تیز سپیڈ بھی اہم ضرورت ہے۔ مگر یہ تمام سہولیات ہر طالب علم کو میسر نہیں ہیں ۔ بلوچستان، سابقہ فاٹا، خیبر پختونخواہ بشمول جنوبی پنجاب کے ایسے بہت سے علاقے ہیں جہاں انٹرنیٹ کی 3جی اور 4جی سروس میسر نہیں ، تو ایسے طلباء اس اقدام سے فائدہ اٹھانے سے یقینا محروم ہیں۔ بلوچستان کے تو اکثر ایسے اضلاع ہیں جہاں 20 گھنٹے کی طویل لوڈشیڈنگ کے باعث طلباء کے لئے ان آن لائن ذرائع سے سیکھنا ممکن ہی نہیں اور اکیسویں صدی میں یقینا یہ ایک المیہ ہے کہ یہاں کے لوگ بجلی اور انٹرنیٹ سے محروم ہیں۔
ان تمام مسائل کے تناظر میں طلباء نے اپنی یونیورسٹیوں کو اپنے مسائل سے آگاہ کرتے ہوئے ساتھ ہی ساتھ سوشل میڈیا بالخصوص ٹویٹر پر احتجاج کرتے ہوئے کئی مرتبہ اپنے مطالبات کو ٹاپ ٹرینڈ بھی بنایا تاکہ انکی مسائل کی دادرسی ہوسکے مگر بدقسمتی سے ابھی تک کوئی ایسی پالیسی منظر عام پر نہیں لائی جاسکی جس میں ان مسائل کا حل موجود ہو۔البتہ چیئرمین ایچ ای سی ڈاکٹر طارق بنوری نے ایک ٹی وی پروگرام میں بات کرتے ہوئے اظہار کیا کہ آن لائن سسٹم میں کمیاں ہیں اور اس کو دور کرنے کی کوششیں تیزی سے جاری ہیں جب ان سے پوچھا گیا کہ جو اسٹوڈنٹس دوردراز علاقوں میں رہتے ہیں انکے لئے کیا اقدامات کئے گئے ہیں جواب میں انہوں نے بتایا کہ وہ ٹیلی کام کمپنیوں سے بات کر رہے ہیں اور اسٹوڈنٹس کے لئے "تعلیم بنڈل" کے نام سے خصوصی پیکج لا رہے ہیں جس کے مطابق یا تو فری یا کم ریٹ پر ڈیٹا پیکج فراہم کیا جائے گا مگر یہ تعلیم بنڈل کب شروع ہوگا؟ اور ان علاقوں میں انٹرنیٹ کیسے مہیا کیا جائے گا؟ یہ سب کچھ ابھی تک سوالیہ نشان ہے اور ان کے حل کا انتظار ہے۔
دوسرا اہم سوال یہ ہے کہ کیا ہمارا ملک فوری طور پر اس سسٹم کو اختیار کرنے کے لئے تیار ہے یا نہیں؟اب تک کی صورتحال تو یہ ہے کہ اس سسٹم نے طلباء کو ذہنی کوفت میں مبتلا کردیا ہے اور انکے لئے مسائل کے انبار لگ گئے ہیں۔ آن لائن سسٹم سے آگہی نہ رکھنا بھی پروفیسرز اور طلباء کے لئے ایک مسئلہ بن گیا اور ایسے افراد جن کی مالی حالت کمزور ہے اور لاک ڈاؤن کی وجہ سے انکے روزگار کے ذرائع بند ہوگئے تو اس صورت میں انکے لئے اپنے بچوں کو یہ سب سہولیات فراہم کرنا ہرگز آسان کام نہیں اور مہنگے ڈیٹا پیکجز کروانا بلکل ناممکن ہے
طلبہ نے اپنے مطالبات میں یہ بھی واضح کیا ہے کہ صرف کنکشن کو نہیں بلکہ جن طلباء کے پاس انٹرنیٹ کی سہولت موجود بھی ہے انکو بھی آن لائن ذرائع سے کورسز کو سمجھنے میں مشکلات پیش آرہی ہیں کیونکہ وہ تمام کورسز جن کے لئے پریکٹیکل لیب کا ہونا ضروری ہے ہے وہ کورسز صرف لیکچر سننے سے سمجھنا مشکل ہے کیونکہ اس کے لئے پریکٹیکل لیب میں تمام سہولیات کا ہونا ضروری ہے۔اس کے علاوہ ان اسٹوڈنٹس نے جن مطالبات کا ذکر کیا ہے ان میں سے چند درج ذیل ہیں۔
1۔دوردراز علاقوں میں انٹرنیٹ اور بجلی کی سہولتیں فی الفور مہیا کی جائیں تاکہ طلباء اس وقت کو ٹیکنالوجی کا استعمال کرتے ہوئے موثر انداز سے استعمال کرسکیں۔
2۔ جب تک ملک کے تمام طلباء کو یکساں انٹرنیٹ اور دیگر سہولیات فراہم نہیں کی جاتیں تب تک آن لائن کلاسز روک دی جائیں اور آن لائن سسٹم میں بہتری لائی جائیں۔
3۔ اگر لاک ڈاون ختم ہوتا ہے تو واپس کیمپسز میں سرگرمیاں شروع کروائی جائیں اگر نہیں تو واپس آن لائن سسٹم سے کلاسز شروع کی جائیں تب تک اس سسٹم میں بہتری لانے کے لئے تقریبا 2 مہینے دستیاب ہیں۔
اسٹوڈنٹس نے اس خدشہ کا بھی اظہار کیا ہے کہ آن لائن سسٹم شہری اور دیہی علاقوں میں طبقاتی تقسیم پیدا کررہی ہے کیونکہ دونوں قسم کے ماحول میں سہولیات یکساں نہیں ہے اور سب سے بڑھ کر یہ ان کے گریڈز پر بھی اثر ڈال سکتا ہے کیونکہ ابھی تک امتحانات کے طریقہ کار کو بھی وضع نہیں کیا گیا ہے۔
لہذا ضرورت اس امر کی ہے کہ حکومت اور ایچ ای سی مل کر ہنگامی بنیادوں پر طلباء کے ان دیرینہ اور غور طلب مسائل کا حل جلد از جلد تلاش کریں تاکہ ملک کے مستقبل کے ان معماران کے تعلیمی فہم کے ضیاع کو بچایا جاسکیں۔ ایک طرف کورونا اور ایک طرف ان آن لائن کلاسز کے مسائل سے لڑتے ہوئے ان طلبا کے مسائل بالکل جائز ہیں اور ارباب اختیار کو ان کے حل کےلئے ہنگامی بنیادوں پر اقدامات اٹھانے کی ضرورت ہے۔