عمران خان کا قصہ اب تمام ہوا۔ پہلے اگر کسی کو شک تھا بھی تو اب تو واضح ہو چکا ہے کہ وہ طاقت سے چپکے رہنے کے لئے کسی بھی حد تک جا سکتے ہیں۔ انہوں نے اقتدار میں رہنے کے لئے ہر حربہ استعمال کیا لیکن لگتا ہے کہ انہوں نے بہت سے کلیدی اہمیت کے حامل سٹیک ہولڈرز، بشمول ان کی اپنی جماعت کے ارکان، کو ناراض کر دیا تھا۔ ان کے اقتدار سے علیحدہ ہونے سے انکار نے ایک پورا آئینی بحران کھڑا کر دیا۔ اور جب سپریم کورٹ نے ان کی اس کوشش میں ساتھ دینے سے انکار کر دیا تو انہوں نے اپنی پارٹی کے 120 ارکان کو اپوزیشن کا کردار ادا کرنے کے بجائے حکم دیا کہ وہ اسمبلی سے استعفا دے دیں جس سے ظاہر ہوتا ہے کہ وہ جمہوری عمل سے کتنی نفرت کرتے ہیں۔
اور اس سارے عمل کے دوران وہ ایک حربہ اور بھی استعمال کرتے رہے تاکہ ان کے نقاد اپنی عوامی ساکھ کھو دیں: انہوں نے امریکہ پر اپنے خلاف سازش کا الزام عائد کیا اور اس الزام کو ثابت کرنے کے لئے کوئی شواہد سامنے نہیں لائے۔ اگلے چند ماہ میں جب عمران خان اور ان کے حامی شہباز شریف کی نئی آنے والی حکومت کو سبوتاژ کرنے کی ہر کوشش کریں گے، امید کی جا سکتی ہے کہ وہ عوام میں بکنے والے اپنے اس بیرونی سازش کے بیانیے کو انتہا پر لے جائیں گے۔
جس دن عمران خان کو اقتدار سے علیحدہ کیا گیا، انہوں نے ایک 'آزادی کی جنگ' کا اعلان کیا۔ وہ 13 اپریل سے احتجاجی ریلیوں کا آغاز کر چکے ہیں۔ عمران خان اور ان کے ساتھی کبھی ان کے اداروں میں اصلاحات اور کرپشن کے خاتمے کے وعدوں کو پورا کرنے میں ناکامی پر بات نہیں کرتے۔ وہ ملکی معیشت پر بھی بات کرنے سے گریزاں رہتے ہیں جس کی ابتر حالت کی ذمہ داری براہِ راست عمران خان کی غلط پالیسیوں اور ان کی نااہلی پر عائد ہوتی ہے۔ وہ بس ایک ہی دعویٰ بار بار دہراتے چلے جاتے ہیں: عمران خان کے تمام مخالفین غدار ہیں، اور وہ سب حکومت تبدیل کرنے کی امریکی سازش کا حصہ ہیں۔
عمران خان کا دعویٰ ہے کہ انہیں اس سازش کا علم 7 مارچ کو ایک پاکستانی سفیر کے خط سے ہوا۔ اس سفیر نے مبینہ طور پر امریکی سفارتکار ڈانلڈ لو کی پاکستانی حکومت کو دی گئی ایک دھمکی کا ذکر کیا تھا۔ یہ ایک مضحکہ خیز بات ہے۔ میں نے جنوری میں لکھا تھا کہ عمران حکومت ایک بڑے بحران کا شکار ہونے جا رہی ہے – جس کے ذمہ دار بھی وہ محض خود ہیں۔ ان کے دشمنوں کو انہیں گرانے کے لئے کسی بیرونی امداد کی ضرورت نہیں تھی۔
وزیر اعظم بننے کے بعد اپنی پہلی تقریر میں شہباز شریف نے پارلیمنٹ کو بتایا کہ وہ جلد از جلد نیشنل سکیورٹی کمیٹی کا ایک اجلاس بلائیں گے۔ وہ اس پاکستانی سفیر سمیت تمام متعلقہ حکام سے بیرونی سازش کا ثبوت سامنے لانے کو کہیں گے۔ شہباز شریف کا کہنا ہے کہ اگر الزامات درست ثابت ہوئے تو وہ عہدہ چھوڑ دیں گے۔
شہباز شریف کی اس تقریر نے عمران خان کے سازشی بیانیے کو بڑی گزند پہنچائی ہے۔ سکیورٹی ادارے کئی روز پہلے ہی اس حوالے سے اپنی تحقیقات مکمل کر چکے ہیں اور عمران خان کو بتا دیا گیا ہے کہ انہیں کسی بیرونی سازش کے شواہد نہیں ملے۔ لیکن اس کے باوجود عمران خان نے خود کو اقتدار میں رکھنے کی خاطر آرمی چیف سے ایک ڈیل کرنے کی کوشش کی۔ انہوں نے پیشکش کی کہ فوج اگر ان کی معاونت کرے تو جنرل باجوہ جب تک چاہیں، ملک کے آرمی چیف رہ سکتے ہیں۔ لیکن جرنیل نے انکار کر دیا۔
سیاسی ماہرین عمران خان کے ان دعووں کو بری طرح پنکچر کر چکے ہیں۔ سابق صدر آصف علی زرداری اور سابق وزیر اعظم نواز شریف کے ادوار میں چین سے بہت بڑی تعداد میں پاکستان میں سرمایہ کاری کروائی گئی – تو CIA نے ان کے خلاف سازش کیوں نہیں کی؟ امریکہ کا World Bank اور IMF پر گہرا اثر و رسوخ ہے۔ اگر CIA مارچ میں عمران حکومت گرانے جا رہی تھی تو فروری میں IMF نے پاکستان کو 1 ارب ڈالر سے زائد اور اسی ماہ ورلڈ بینک نے قریب 53 کروڑ ڈالر کیوں فراہم کیے؟ اگر عمران خان کو امریکی دھمکی 7 مارچ کو موصول ہو گئی تھی، تو انہوں نے اسلام آباد میں 21 مارچ کو ہونے والی اسلامی سربراہی کانفرنس میں ایک امریکی عہدیدار کو بطور مہمان دعوت کیوں دی؟
ایک جانب عمران خان بیرونی سازش کا راگ الاپ رہے ہیں، دوسری جانب انہیں برطانوی سیاستدان زیک گولڈسمتھ سے حمایت مانگنے میں کوئی مسئلہ نہیں ہے، جو کہ ان کی سابقہ اہلیہ کے بھائی ہیں۔ جب 2016 میں زیک گولڈ سمتھ ایک پاکستانی نژاد برطانوی شہری کے خلاف لندن کے میئر کا الیکشن لڑ رہے تھے تو عمران خان نے گولڈ سمتھ کا ساتھ دیا تھا۔ گولڈ سمتھ صادق خان سے الیکشن میں شکست کھا گئے اور بعد میں صادق خان نے الزام عائد کیا تھا کہ زیک گولڈ سمتھ نے ان کے خلاف اسلامو فوبک حربے استعمال کیے تھے۔
شہباز شریف کو یہ سمجھنا ہوگا کہ وہ کسی عام سیاستدان سے برسرِ پیکار نہیں۔ انہیں یہ لازمی سمجھنا ہوگا کہ ان کا مخالف ایک سفاک سازشی ہے جو کسی بھی حد تک جا سکتا ہے۔ صرف امید ہی کی جا سکتی ہے کہ وہ اس چیلنج کا مقابلہ کر پائیں گے۔
حامد میر کا یہ مضمون واشنگٹن پوسٹ میں شائع ہوا جسے نیا دور اردو قارئین کے لئے ترجمہ کیا گیا ہے۔