بھنگ پالیسی وزارت سائنس اور ٹیکنالوجی نے تیار کی ہے۔ بھنگ پالیسی منظوری کیلئے وفاقی کابینہ کو بھجوائی گئی ہے۔ وزارت سائنس کے مطابق سرمایہ کاروں کی سہولت کیلئے بھنگ اتھارٹی بنائی جائے گی۔ ریگولیٹری اتھارٹی کے تحت ون ونڈو آپریشن شروع کیا جائے گا۔
وزیر سائنس و ٹیکنالوجی شبلی فراز نے کہا ہے کہ بھنگ پالیسی منظوری کیلئے وفاقی کابینہ کو بھجوا دی گئی ہے ، سرمایہ کاروں کی سہولت کیلئے بھنگ اتھارٹی بنائی جائے گی۔
انہوں نے کہا کہ ریگولیٹری اتھارٹی کے تحت ون ونڈو آپریشن شروع کیا جائے گا ، بھنگ کی کاشت کیلئے لاتعداد درخواستیں موصول ہورہی ہیں ، پہلے مرحلے میں 100 کمپنیوں کو بھنگ کی کاشت کے لائسنس جاری کیے جائیں گے۔
وزارت سائنس و ٹیکنالوجی نے کہا کہ بھنگ پالیسی اسٹیک ہولڈرز کے ساتھ مشاورت کے بعد تشکیل دی گئی ، وزارت تعلیم، کامرس، زراعت اور انسداد منشیات سے مشاورت کی گئی ، بھنگ کی کاشت کے ایریا کے گرد باؤنڈری وال اور فیلڈ میں کیمرے لگائے جائیں گے۔
شبلی فراز نے کہا ہے کہ عالمی سطح پر بھنگ کی 100 ارب سے زائد کی مارکیٹ ہے ، بھنگ پالیسی میڈیکل اور انڈسٹریل کاشت کیلئے بنائی گئی ، بھنگ کی کاشت سے ادویات اور ٹیکسٹائل کی امپورٹ کم ہوگی۔
واضح رہے کہ اس سے قبل گزشتہ سال ستمبر میں وفاقی حکومت نے ادویات میں استعمال کے لیے ایک محدود پیمانے پر بھنگ کی کاشت کی اجازت دی تھی۔
بھنگ کی کاشت حکومت کی نگرانی میں ہوگی، جب کہ نجی شعبے کو اس منصوبے میں شامل ہونے کی اجازت نہیں دی گئی ہے۔ حکومت کا کہنا ہے کہ بھنگ کی کاشت سے اگلے تین سال میں پاکستان ایک ارب ڈالر کا زرمبادلہ کما سکتا ہے۔
اس وقت کے وفاقی وزیر برائے سائنس و ٹیکنالوجی فواد چوہدری نے اسلام آباد میں پریس کانفرنس سے خطاب کرتے ہوئے کہا تھا کہ بھنگ کی کاشت کیلئے پشاور، جہلم اور چکوال کے علاقوں کا انتخاب کیا گیا ہے۔
یہاں یہ بات بھی قابل ذکر ہے کہ کراچی یونیورسٹی میں قائم ادارے انٹرنیشنل سینٹر فار کیمیکل اینڈ بائیولوجیکل سائنسز (آئی سی سی بی ایس) نے تحقیق کے بعد بھنگ کی کاشت کے لیے تین علاقوں کی نشاندہی کی تھی جن میں مری ایکسپریس وے سے ملحقہ علاقہ موضع لوکوٹ، صوبہ خیبر پختونخوا کا ضلع ہری پور اور سندھ کے ضلع ٹھٹہ کا علاقہ میرپور ساکرو شامل ہے۔
ادارے کے مطابق بھنگ کینسر سمیت ان دیگر بیماریوں کی ادویات بنانے کے لیے استعمال ہوگی جن میں مریض شدید درد کے شکار ہوجاتے ہیں۔
دستیاب سرکاری دستاویزات کے مطابق پاکستانی وزیر اعظم عمران خان نے گزشتہ سال اپریل میں وزارتِ انسداد منشیات کو ہدایت کی تھی کہ وہ بھنگ کی کاشت کے حوالے سے وزارت سائنس و ٹیکنالوجی کے علاوہ وزارت غذائی تحفظ اور وزارت تجارت کے ساتھ مل کر لائحہ عمل تیار کریں تاکہ بھنگ کو ادویات میں استعمال کرنے کے ساتھ ساتھ بیرون ملک برآمد بھی کیا جاسکے جہاں پر یہ ادویات کی تیاری میں استعمال ہو رہی ہے۔
کئی ممالک میں بھنگ کو سرور حاصل کرنے کے لیے یا طبی مقاصد کے لیے استعمال کرنے کی اجازت دی جا چکی ہے۔
وہ ممالک جہاں بھنگ کا طبی مقاصد کے لیے استعمال قانونی ہے، ان میں برطانیہ کے ساتھ ساتھ آسٹریلیا، برازیل، کینیڈا، فن لینڈ، جرمنی، اٹلی، نیدرلینڈز، نیوزی لینڈ، پولینڈ، پرتگال، سری لنکا، تھائی لینڈ اور دیگر کئی ممالک شامل ہیں۔
امریکا کی 33 ریاستوں میں طبی مقاصد کے لیے اسے قانونی طور پر استعمال کیا جا سکتا ہے تاہم امریکا کے وفاقی قانون کے مطابق یہ اب بھی شیڈول 1 کی منشیات کی فہرست میں شامل ہے۔
بھنگ کے پودے میں سیکڑوں مختلف کیمیائی اجزا ہوتے ہیں جن میں سے کچھ سرور کی کیفیت بھی پیدا کرتے ہیں تاہم طبی مقاصد کے لیے استعمال کی جانے والی بھنگ میں سے یہ اجزا عموماً نکال دیے جاتے