کراچی بچاؤ تحریک کی مخنث خاتون کو تشدد اور ریپ کا نشانہ بنانے کا انکشاف

02:37 PM, 14 Dec, 2021

نیا دور
کراچی بچاؤ تحریک کے تحت منعقدہ پیپلز کلائمیٹ مارچ کے منتظمین میں سے ایک مخنث خاتون کو مشتبہ افراد کی جانب سے تشدد کا نشانہ بنانے کے بعد جنسی طور پر ہراساں کیا گیا۔

اتوار کو ہونے والے مارچ سے ایک دن قبل ہی ہفتہ کی رات کو مذکورہ مخنث خاتون کو اغوا کر کے مارچ کے حوالے سے معلومات حاصل کرنے کی کوشش کی۔

کراچی میں گرائی جانے والے مڈل کلاس افراد کی املاک اور مارکیٹوں کو بچانے کے لیے اور عمل کے خاتمے کے لیے کوشاں کراچی بچاؤ تحریک نے اس سماجی رابطوں کی ویب سائٹ ٹوئٹر پر پیغام میں اس واقعے کا انکشاف کیا۔

انہوں نے کہا کہ کراچی میں عوامی ماحولیات مارچ کے انتظامی کمیٹی کے اراکین میں سے ایک کو مبینہ طور پر اٹھا لیا گیا اور 11مارچ کی رات تشدد کا نشانہ بنانے کے ساتھ ساتھ ان کا ریپ بھی کیا گیا۔

https://twitter.com/StopEvictionKHI/status/1470426326876102658

کراچی بچاؤ تحریک نے مزید کہا کہ ہم نے کراچی میں عوامی ماحولیات مارچ کا انعقاد کیا، مارچ سے ایک دن قبل رات میں ہم نے انتظامی کمیٹی کااجلاس طلب کیا، ہمارے منتظمین میں سے ایک مخنث خاتون کو اجلاس سے جاتے ہوئے راستے سے اغوا کر لیا گیا اور تشدد کا نشانہ بنانے کے بعد ان کا ریپ کیا گیا۔

اس حوالے سے دعویٰ کیا گیا کہ مخنث خاتون پر تشدد میں پولیس بھی ملوث تھی اور انہوں نے مارچ کے حوالے سے معلومات اکٹھا کرنے کے لیے ایسا کیا۔

جینڈر انٹرایکٹو الائنس کی تشدد کے واقعات کی منیجر شہزادی رائے نے ڈان ڈاٹ کام کو بتایا کہ کراچی بچاؤ تحریک کی رکن کو 11دسمبر کی رات اجلاس سے گھر واپسی پر عباسی شہید ہسپتال کے قریب سے اغوا کیا گیا، انہیں تین گھنٹے تک غیرقانونی طور پر حبس بے جا میں رکھا گیا اور ناظم آباد بورڈ آفس کے قریب چھوڑنے سے قبل انہیں تشدد اور ریپ کا نشانہ بنایا گیا۔

انہوں نے بتایا کہ مشتبہ افراد نے مخنث خاتون کو اغوا کرنے کے بعد ان سے مارچ کے پروگرام اور خطیبوں کے بارے میں تفصیلات طلب کیں، مذکورہ مخنث خاتون انتہائی خوفزدہ ہیں اور مقدمہ درج کرنے کے حوالے سے ہچکچاہٹ رہی ہیں۔

دریں اثنا جینڈر انٹریکٹو الائنس کی ایک اور نمائندہ بندیا رانا نے ڈان ڈاٹ کام کو بتایا کہ وہ اس بارے میں سندھ حکومت کی جانب سے بنائے گئے انسانی حقوق کمیشن کے ساتھ ایک میٹنگ کریں گی۔

کراچی بچاؤ تحریک کے ایک اہلکار نے نام ظاہر نہ کرنے کی شرط پر بتایا کہ تحریک کے کارکنوں کو لوگوں کو درپیش مسائل کو اجاگر کرنے کی وجہ سے ناپسندیدہ رویہ اور جھوٹے مقدمات کا نشانہ بنایا گیا۔

https://twitter.com/SindhCMHouse/status/1470463801380290568

دوسری جانب وزیر اعلیٰ سندھ مراد علی شاہ کے سے کی گئی ٹوئٹ کے مطابق مراد علی شاہ نے واقعے کا نوٹس لیتے ہوئے آئی جی پولیس کو حکم دیا ہے کہ وہ معاملے کی تحقیقات کریں اور انہیں رپورٹ پیش کریں۔

وزیراعلیٰ کے ترجمان رشید چنا نے ڈان ڈاٹ کام کو بتایا کہ مبینہ زیادتی کا شکار ہونے والی مخنث خاتون نے باضابطہ طور پر مقدمہ درج کرانے کے لیے پولیس سے رابطہ نہیں کیا۔

انہوں نے مزید کہا کہ پولیس ٹرانس جینڈر کمیونٹی کے نمائندوں اور دیگر متعلقہ افراد سے رابطے میں ہے تاکہ انہیں اس مقدمے کی ایف آئی آر درج کرنے پر آمادہ کیا جا سکے تاکہ رسمی قانونی کارروائی شروع کی جا سکے۔

وزارت انسانی حقوق نے بھی اس واقعے کا نوٹس لیتے ہوئے کہا کہ وزارت کے مخنت کے حقوق کے ماہرین متاثرہ کے سرپرستوں سے رابطے میں ہیں اور ہماری وزارت ان کے تحفظ کو یقینی بنانے کے لیے سندھ حکومت سے رابطہ کرے گی۔

پیپلز کلائمیٹ مارچ کے درجنوں شرکا نے اتوار کی شام کراچی کے بوٹ بیسن کے قریب ایک ریلی نکالی تاکہ حکام کی توجہ موسمیاتی تبدیلیوں کے منفی اثرات بالخصوص ملیر اور ملحقہ علاقوں میں مبینہ طور پر درختوں کی کٹائی کی وجہ سے رونما ہونے والی ماحولیاتی تباہی کی طرف مبذول کرائی جا سکے کیونکہ طڑے پیمانے پر رہائشی منصوبوں کی راہ ہموار کرنے کے لیے کٹائی اور زرعی اراضی کو تباہ کیا جا رہا ہے۔

https://twitter.com/mohrpakistan/status/1470478670531899397

منتظمین اور عینی شاہدین کے مطابق 10 کے قریب سیاسی جماعتوں اور سول سوسائٹی کی تنظیموں سے تعلق رکھنے والے کارکنان کلفٹن ساحل سمندر کے قریب پہنچے اور بلاول ہاؤس کی طرف مارچ کرنے کی کوشش کی لیکن پولیس اہلکاروں نے انہیں آگے بڑھنے سے روک دیا تھا۔

پولیس کے اس اقدام سے مارچ کے شرکا نے بلاول ہاؤس سے کچھ دور سروس روڈ پر دھرنا دیا تھا۔

مرد، خواتین اور بچوں سمیت مارچ کے شرکا نے بحریہ ٹاؤن کراچی، ڈی ایچ اے کراچی، مقامی لوگوں کی زمینوں پر قبضے، ملیر ایکسپریس وے کی تعمیر، ملیر اور گڈاپ میں زرعی اراضی کی تباہی، گجر اور اورنگی نالہ پر واقع مکانات مسمار کرنے کے خلاف نعرے لگائے۔
مزیدخبریں