پے در پے مارشل لا، کمزور جمہوریت؛ پاکستان اور ترکی میں بہت کچھ مشترک ہے

11:00 AM, 14 Dec, 2022

عاصم علی
پاکستان اور ترکی دونوں اسلامی ملک ہیں۔ دونوں ملکوں میں کئی تاریخی اور مذہبی اقدار مشترک ہیں۔ ان دونوں چاند ستارے والی مسلم ریاستوں میں سیاسی مماثلت بھی کافی پائی جاتی ہے۔ دونوں ملکوں کی سیاست کے اندر فوج کا کردار ہمیشہ سے کلیدی رہا ہے. دونوں ممالک میں فوج نے کئی دفعہ مارشل لا لگایا۔ ایک دلچسپ اتفاق ہے کہ ترکی میں 1960 سے لے کر آج تک 4 مارشل لا لگے ہیں۔ اسی طرح پاکستان میں بھی 1958 سے لے کر آج تک 4 مارشل لا ہی لگے ہیں۔ دونوں ملکوں میں جمہوریت اور سیاست انتشار کا شکار رہی اور اسی وجہ سے فوج کو بار بار جمہوری اور سیاسی بساط کو لپیٹنے کا موقع ملتا رہا۔ دونوں ملکوں میں ریاست اور سیاست دائیں بازو اور بائیں بازو کے نظریات میں بٹی رہی جس سے سیاسی استحکام دشواری کا شکار رہا۔ دونوں معاشروں میں مذہب ایک اہم کردار کرتا آ رہا ہے۔ پاکستان اور ترکی دونوں میں اشرافیہ اور مڈل کلاس کے درمیان مذہب کی تشریح اور اور اس کے نفاذ میں اختلاف رہا ہے۔ دونوں ممالک ریاست اور سیاست میں مذہب کے کردار کی حد بندیوں پہ الجھن کا شکار رہے ہیں۔

ترکی میں پہلا مارشل لا 1960 میں اس وقت لگا جب وزیراعظم عدنان مینڈیرس اور صدر سیلال بیار نے کمال اتاترک کے دور کے بنائے گئے ترک قومیت پہ مبنی قوانین کو تبدیل کر کے ان کی جگہ پر مذہبی (اسلامی) طرز کے قوانین لا کر ترکش معاشرے میں اصلاحات کا عمل شروع کیا۔ اس دور میں ہزاروں کے حساب سے مساجد کھولی گئیں، مذہبی تعلیمات کے لیے نئے اداروں کی بنیاد رکھی گئی اور عربی میں اذان دینے کو قانونی قرار دیا گیا۔ ترکی کی فوج نے اقتدار کے اوپر قبضہ کر کے وزیراعظم اور صدر دونوں کو گرفتار کر لیا اور ان پر غداری کے مقدمات بنائے گئے۔ غداری کے مقدمات کے نتیجے میں وزیراعظم عدنان مینڈیرس کو پھانسی دے دی گئی۔ بالکل اسی طرح جیسے پاکستان کے پہلے منتخب وزیراعظم ذوالفقار علی بھٹو کو مارشل لا کے دور میں پھانسی دے دی گئی۔

ترکی میں عدنان مینڈیرس کی پھانسی کے بعد ان کو بے پناہ شہرت اور عزت ملی اور ان کی پارٹی کو کئی بار الیکشن میں جیت ہوئی جس طرح پاکستان پیپلزپارٹی کو بھٹو صاحب کی شہادت کے بعد عوام میں مقبولیت بھی ملی اور کافی دفعہ اقتدار بھی نصیب ہوا۔ ترکی کی پارلیمنٹ نے 1990 میں عدنان مینڈیرس کو ریاستی معافی دے دی اور ان کے جسد خاکی کو استنبول کے ایک عظیم الشان مقبرے میں منتقل کیا گیا۔ مگر پاکستان میں بھٹو صاحب اپنے عدالتی قتل کے 43 سال بعد بھی انصاف کے منتظر ہیں۔

ترکی میں دوسرا مارشل لا 1971 میں اس وقت لگا جب ترکی کی اقتصادی حالت انتہائی خراب ہو چکی تھی۔ مہنگائی کی وجہ سے پورے ملک میں مظاہرے ہو رہے تھے اور بدامنی کی صورت حال تھی۔ دائیں بازو اور بائیں بازو کے گروہ ایک دوسرے کے اوپر پرتشدد حملے کر رہے تھے۔ جس کو بنیاد بنا کر ترکی کی فوج نے مارچ 1971 میں حکومت کا کنٹرول سنبھال لیا اور کمال اتاترک کے نظریات کے مطابق حکومت تشکیل دینے پر زور دیا۔ وزیراعظم سلیمان دیمیرل نے استعفیٰ دے دیا اور فوج نے اپنے من پسند شخص فہری کوروترک جو کہ ایک ریٹائرنیول آفیسر تھے، کو ترکی کا صدر بنا دیا۔

ترکی میں 1971 کی فوجی کارروائی کے بعد سیاسی انتشار اپنے عروج پر رہا۔ 1970 کے عشرے کے دوران ترکی میں 11 وزیراعظم تبدیل ہوئے۔ پاکستان میں بھی 1951 سے لے کر 1958 تک 6 وزیراعظم تبدیل ہوئے اور بلآخر 1958 میں مارشل لا کی راہ ہموار ہوئی۔ ترکی میں دائیں اور بائیں بازو کے درمیان سیاسی فسادات گلیوں تک پہنچ گئے اور ہزاروں افراد مارے گئے۔ اسی طرح کے فسادات 1977 میں بھٹو صاحب کے دور میں بھی ہوئے جس میں کافی بے گناہ لوگوں کی جان گئی اور ان فسادات میں دائیں بازو کی مذہبی پارٹیاں پیش پیش تھیں۔ ترکی کی فوج فسادات اور بدامنی کی صورت حال کو دیکھتے ہوئے 1979 میں مداخلت کے بارے میں غوروفکر کرنا شروع ہو گئی تھی۔ مارچ 1980 میں فوجی آفیسرز نے سرکاری ٹی وی پر آ کر حکومت کو تحلیل کر کے ملک میں مارشل لا نافذ کر دیا۔ یہ ترکی کا تیسرا مارشل لا تھا۔ یہ واقعہ پاکستان میں جولائی 1977 کی یاد دلاتا ہے جب جنرل ضیاء الحق نے ٹی وی پر آ کر اعلان کیا کہ میرے عزیز ہم وطنو ملک کی پارلیمنٹ کو تحلیل کر کے مارشل لا نافذ کر دیا گیا ہے۔ اس دفعہ بھی فوج نے ایک سابق نیول آفیسر بلنت الوسو کو ملک کا وزیراعظم بنایا۔ پاکستان اور ترکی دونوں میں سابق فوجی آفیسرز مارشل لا کے ادوار میں اعلیٰ عہدوں پر فائز رہے ہیں۔

ترکی میں 1995 میں انتخابات ہوئے جس میں اسلامی ویلفیئر پارٹی کو واضح اکثریت حاصل ہوئی جس نے اپنے اتحادیوں کے ساتھ مل کر حکومت بنائی۔ ترکی کی فوج کو اسلامی اصلاحات کسی طرح بھی قابل قبول نہیں تھیں اور اب اسلامی پارٹی کی حکومت نے فوج کے لیے خطرات میں اور اضافہ کر دیا۔ ترکی کی فوج نے وزیراعظم اربکان کو چند تجاویز دیں جن پر عمل درآمد کے لیے حکومت پر زور دیا گیا۔ اربکان کی حکومت اپنے اسلامی رجحان کے باوجود کچھ تجاویز پر عمل کرنے کے لیے تیار ہو گئی جس میں آٹھ سالہ تعلیمی پروگرام جس کے مطابق طالب علموں کے مذہبی سکولوں میں داخلے پر پابندی، یونیورسٹیوں اور دیگر تعلیمی اداروں میں سکارف کی پابندی جیسی دیگر تجاویز نافذ ہوئیں۔ مگر ان اقدامات کے باوجود وزیراعظم اربکان اپنی حکومت نہ بچا سکے اور ملک میں چوتھا مارشل لا نافذ کر دیا گیا اور وزیراعظم اربکان سے استعفیٰ لے لیا گیا۔ 1998 میں اسلامی ویلفیئر پارٹی کو کالعدم قرار دیا گیا اور اربکان کی سیاست پر پانچ سال کے لیے پابندی عائد کر دی گئی۔ اسلامی ویلفیئر پارٹی کے بچے کھچے اراکین، جن میں موجودہ صدر رجب طیب اردوگان بھی شامل تھے، نے مل کر جسٹس اینڈ ڈویلپمنٹ پارٹی بنائی۔

ترکی میں 2002 میں عام انتخابات ہوئے جن میں جسٹس اینڈ ڈویلپمنٹ پارٹی کو واضح اکثریت حاصل ہوئی۔ پارٹی کے صدر طیب اردگان حکومت نہ بنا سکے کیونکہ ان کے اوپر الیکشن لڑنے کی پابندی تھی۔ اردوگان جب استنبول کے میئر تھے انہوں نے ایک نظم پڑھی تھی جو ریاست کے حساب سے فسادات کو ہوا دیتی تھی اس لیے 1994 میں ان کے اوپر انتخاب لڑنے پر پابندی عائد کر دی گئی تھی۔ اس وجہ سے 2002 میں ان کی جگہ عبداللہ گل وزیراعظم بن گئے۔ مگر بعد میں پابندی ہٹنے کے بعد اردوگان 2003 میں وزیراعظم بن گئے اور 2014 تک وزیراعظم رہے۔ 2014 میں اردوگان ترکی کے پہلے منتخب صدر بن گئے۔ تب سے ترکی کی فوج اردوگان کے اسلامی جھکاؤ کی وجہ سے ان سے خطرہ محسوس کر رہی تھی۔

اس سے پہلے جب 2007 میں اردوگان نے الیکشن لڑنے کا فیصلہ کیا تھا جس کے خلاف انقرہ میں تقریباً 3 لاکھ افراد نے اردوگان کے فیصلے کے خلاف احتجاج کیا کیونکہ ان کو لگتا تھا کہ اردوگان صدر بن کر ترکی کی سیکولر حیثیت کو اسلامی رنگ میں ڈھالنے کی کوشش کریں گے۔ طیب اردوگان اور ان کی اسلامی طرز کی پالیسیوں سے چھٹکارا پانے کے لیے ترکی کی فوج نے جولائی 2016 میں پھر سے مارشل لا لگانے کی کوشش کی۔ فوجی آفیسرز نے نیشنل ٹی وی پر آ کرمارشل لا کا یہ جواز پیش کیا کہ وہ ترکی کی جمہوریت کو طیب اردوگان سے بچانا چاہتے ہیں۔ مگر اس بار ماضی کی طرح فوج کو مارشل لا کے لیے عوام کی حمایت نہ مل سکی اور مارشل لا کی کوشش کرنے والے فوجی افسران نے ہتھیار ڈالنے شروع کر دیے۔ عوام کی غیر مثالی حمایت کی وجہ سے فوج اس بار مارشل لا نہ لگا سکی۔

ترکی میں تو اردگان کی کارکردگی اور عوام کی حمایت کی وجہ سے فوج کے مارشل لا لگانے کا راستہ بظاہر بند ہو گیا ہے۔ کیا پاکستان میں بھی ایسا ممکن ہے کہ ترکی کی طرح پاکستان میں فوج اب مارشل لا نہیں لگانے کا نہیں سوچے گی اور اگر ایسا سوچے گی تو عوام ان کا راستہ روک پائیں گے؟ مگر پاکستان میں ایسے معجزات کی توقعات سے پہلے ترکی جیسی قوم بنانا پڑے گی اور اردوگان جیسی کارکردگی والا ایک آدھ سیاسی رہنما بھی درکار ہو گا۔
مزیدخبریں