سویرا بتول (فرضی نام) 2014 میں سٹوڈنٹ ویزا پر برطانیہ گئیں۔ ان کا ٹیلی فون پر برطانیہ میں مقیم ایک پاکستانی شہری علی جٹ سے نکاح ہوا تھا جن کی قانونی حیثیت (اس وقت) پرماننٹ ریذیڈنٹ کی تھی جنہیں فی الحال شہریت نہیں ملی تھی اور وہ دو دہائیاں قبل غیرقانونی طور پر برطانیہ پہنچے تھے۔ سویرا بتول نچلے متوسط طبقے مگر اعلیٰ تعلیم یافتہ خاندان سے تعلق رکھتی ہیں۔ انہوں نے لندن کے ایک تعلیمی ادارے میں داخلہ لیا مگر جب برطانیہ جانے کا مرحلہ درپیش ہوا تو سویرا بتول کے لیے دستاویزات کی تیاری کسی چیلنج سے کم نہیں تھی اور سب سے اہم چیلنج بینک سٹیٹمنٹ کا بندوبست کرنا تھا جس کے لیے تعلیمی ادارے کی شرط کے مطابق اکاؤنٹ میں 40 لاکھ کا ہونا ضروری تھا۔ سویرا بتول چونکہ ایک ایجنٹ کے ذریعے اپنی ویزا پراسیسنگ کروا رہی تھیں تو اسی کے مشورے پر انہوں نے تین فی صد شرحِ سود پر وسطی پنجاب کے ضلع ننکانہ صاحب کے ایک سرکاری بینک سے بینک سٹیٹمنٹ بنوا لی۔
ان کے دیگر کاغذات مکمل ہوئے تو انٹرویو با آسانی پاس کیا اور برطانوی ویزا حاصل کرنے میں کامیاب رہیں۔ سویرا بتول کا علی جٹ سے چونکہ نکاح ہو چکا تھا جس کے باعث انہوں نے چند روز ہی اپنا تعلیمی سلسلہ جاری رکھا اور ایک ماہ بعد ہی کالج چھوڑ دیا جس کے باعث برطانوی قانون کے مطابق ان کی تارکِ وطن کی حیثیت غیر قانونی ہو گئی۔ ان کے شوہر علی جٹ کو چوںکہ پرماننٹ ریذیڈنٹ کی حیثیت حاصل ہو چکی تھی مگرسویرا بتول کو اس کے باوجود بہت سی قانونی مشکلات کا سامنا کرنا پڑا۔ انہوں نے علی جٹ کے ساتھ برطانوی قانون کے مطابق نکاح رجسٹرڈ کروایا اور قانونی کاغذات مکمل کرنے میں چھ ماہ لگے جس کے بعد ان کو برطانیہ رہنے کی اجازت مل سکی۔ وہ اب دو بچوں کی ماں ہیں مگر ان کو برطانیہ کی مکمل شہریت حاصل نہیں ہو سکی۔ یہ درست ہے کہ ان کی بینک سٹیٹمنٹ قانونی تھی مگر اس کے بنوانے کا طریقہ کار قانونی نہیں تھا اور برطانیہ جا کر تعلیمی ادارہ چھوڑنے کے بعد ان کی حیثیت مکمل طور پر غیر قانونی تارکِ وطن کی ہو گئی جس کے لیے انہوں نے ایک طویل قانونی جنگ لڑی۔
سویرا بتول نے اس رپورٹر سے بات کرتے ہوئے بتایا؛ 'میں گومگو کی کیفیت کا شکار ہو گئی تھی۔ کبھی یہ محسوس ہوتا کہ مجھے ڈی پورٹ کر دیا جائے گا، میرے وہ دن ہمہ وقت خوف میں گزرے۔ بہرحال میرے شوہر نے اس حوالے سے میری بھرپور مدد اور حوصلہ افزائی کی اور یوں میں پرماننٹ ریذیڈنٹ کی قانونی حیثیت حاصل کرنے میں کامیاب ہوئی جبکہ میں دو بچوں کی ماں ہوں جن کی پیدائش برطانیہ کی ہی ہے۔'
16 سالہ محمد حسن (فرضی نام) کی کہانی بھی کچھ مختلف نہیں۔ انہوں نے چند روز قبل ہی برطانیہ کا سٹڈی ویزا حاصل کیا ہے اور ان دنوں برطانیہ میں مقیم ہیں۔ انہوں نے ایک ایجنٹ کے ذریعے بینک سٹیٹمنٹ بنوائی جو بیرونِ ملک تعلیم کے حصول کے لیے نہایت اہمیت کی حامل ہے۔ محمد حسن کے والد نے پانچ فی صد انٹرسٹ ریٹ (ان دنوں برطانیہ چونکہ بڑی تعداد میں ویزے جاری کر رہا ہے جس کے باعث انٹرسٹ ریٹ بھی زیادہ وصول کیا جا رہا ہے) پر چھ ماہ کے لیے 60 لاکھ روپے کی بینک سٹیٹمنٹ بنوائی۔ محمد حسن کچھ عرصہ کے لیے تعلیمی سلسلہ جاری رکھنے کے بعد برطانیہ میں سیاسی پناہ لینے کا ارادہ رکھتے ہیں۔ انہوں نے مگر یہ واضح نہیں کیا کہ وہ سیاسی پناہ کے حصول کے لیے کیا جواز پیش کریں گے۔
خیال رہے کہ لاہور کے علاقے نیومسلم ٹاؤن میں ایجوکیشن کنسلٹنسی کے بہت سے ادارے کام کر رہے ہیں۔ شہر کے ایک ممتاز ایجوکیشن کنسلٹنٹ سے جب اس رپورٹر نے رابطہ کیا اور کہا کہ وہ یورپ جانے کا خواہش مند ہے مگر بینک سٹیٹمنٹ کا مسئلہ درپیش ہے اور کیا وہ بینک سٹیٹمنٹ بنوا کر دے سکتے ہیں، اس کے جواب میں انہوں نے دوٹوک الفاظ میں کہا کہ ہم پہلے بینک سٹیٹمنٹ بنا دیتے تھے مگر اب نہیں بناتے کیونکہ ہمارے لیے بہت سی پیچیدگیاں پیدا ہوجاتی ہیں۔
انہوں نے نام ظاہر نہ کرنے کی شرط پر مزید کہا؛ 'یورپ کے دیگر ملکوں میں بھی صورتِ حال مختلف نہیں۔ بینک سٹیٹمنٹ ہونے کے بعد بھی اگر آپ کو مغربی ملک کی شہریت یا پرماننٹ ریذیڈنٹ شپ نہیں مل پاتی اور آپ اپنا تعلیمی سلسلہ منقطع کر دیتے ہیں توآپ غیرقانونی تارکینِ وطن کی فہرست میں شمار کیے جائیں گے اور آپ کو ہر ملک میں تارکینِ وطن کے لیے رائج قوانین کے تحت سزاؤں کا سامنا کرنا پڑ سکتا ہے جس میں ڈی پورٹ کرنا بھی شامل ہے جب کہ ان تارکینِ وطن کو جس کرب سے گزرنا پڑتا ہے اس کا لفظوں میں بیان ممکن نہیں۔'
ایک معروف پاکستانی نژاد برطانوی قانون دان (سولیسیٹر) احمد صغیر جو برطانیہ کی ایک معروف لافرم سے منسلک ہیں، نے واٹس ایپ پر اس رپورٹر سے بات کرتے ہوئے بتایا؛
'طالب علم برطانیہ یا یورپی یونین کے کسی اور رکن ملک آنے کے بعد دو طرح کی مشکلات کا سامنا کرتے ہیں۔ وہ طالب علم جو تعلیمی سلسلہ جاری رکھنا چاہتے ہیں، وہ متعلقہ ملک کی پالیسی کے مطابق ایک مقررہ وقت کے لیے تعلیم کے ساتھ ملازمت کا سلسلہ بھی جاری رکھ سکتے ہیں۔ برطانیہ میں ایک طالب علم قانونی طور پر ایک ہفتے میں 20 گھنٹے تک کام کر سکتا ہے مگر بہت سے طالب علم اپنی صحت کی پروا کیے بغیر اور قوانین کو نظرانداز کرتے ہوئے 50 گھنٹے یا اس سے بھی زیادہ کام کرتے ہیں جو قانون کی کھلی خلاف ورزی ہے جس کے باعث ان کو برطانوی معاوضوں کے قانون سے کم معاوضہ ملتا ہے اور یوں وہ بدترین معاشی استحصال کا سامنا کرتے ہیں مگر ان کے پیش نظر کسی بھی طور پر اپنا تعلیمی سلسلہ مکمل کرنا ہوتا ہے جبکہ بہت سے طالب علم ایک سمیسٹر پڑھنے کے بعد تعلیمی سلسلہ منقطع کر دیتے ہیں جس کے بعد ان کی حیثیت غیر قانونی تارک وطن کی ہو جاتی ہے۔ کچھ نوجوان چند ماہ کے لیے تو کم ترین تنخواہوں پر کام کر لیتے ہیں، تاہم قانون کی گرفت میں آجائیں تو ان کو ان کی قانونی حیثیت کا تعین کرنے تک جیل میں رکھا جاتا ہے اور بہت سوں کو فوری طور پر ڈی پورٹ کر دیا جاتا ہے اور وہ تارکینِ وطن جو گرفتار نہ ہوں، ان کو رہائش سے لے کرروزمرہ ضروریات پوری کرنے کے لیے بہت سی مشکلات کا سامنا کرنا پڑتا ہے۔'
متذکرہ بالا صورتِ حال کے تناظر میں پاکستان کے نجی اور سرکاری بینکوں کا کردار اس لیے تشویش ناک ہے کہ ان کا بینک سٹیٹمنٹ بنانے کا طریقہ کار کسی طور بھی قانونی قرار نہیں دیا جا سکتا اور طالب علموں پر اضافی معاشی بوجھ کا باعث بھی بنتا ہے۔
اس رپورٹر کی گجرات کے ایک نواحی قصبے میں ایک ایجنٹ کے توسط سے ایک نجی بینک کے اہل کار سے ملاقات ہوئی جس نے بینک سٹیٹمنٹ تیار کرنے کی حامی بھر لی جس کے لیے ایک مخصوص شرح کے مطابق ماہانہ بنیادوں پر رقم ادا کرنا تھی۔ اس نے نام ظاہر نہ کرنے کی شرط پر بتایا؛ 'یہ سالانہ کروڑوں نہیں بلکہ اربوں روپے کا کاروبار ہے کیونکہ ہم اگر پانچ فی صد ماہانہ شرح منافع وصول کریں تو تین فی صد سرمایہ کاری کرنے والے کے ہوتے ہیں، یوں وہ چند ماہ میں اچھا منافع کما لیتا ہے جب کہ بینک اہل کاروں کو بھی بچت ہو جاتی ہے اور بیرونِ ملک جانے کے خواہش مندوں کی مشکل بھی آسان ہوجاتی ہے۔'
اس ساری صورتِ حال میں یہ پاکستان میں قائم بیرونِ ملک کے سفارت خانوں کے علاوہ قانون نافذ کرنے والے متعلقہ اداروں اور بینکنگ سیکٹر کے واچ ڈاگز کی ذمہ داری ہے کہ وہ اس منفی رجحان کو روکیں کیونکہ بینک سٹیٹمنٹ ویزا کے حصول کے لیے ایک اہم ترین دستاویز ہے جس کے باعث اس کے بنائے جانے کا عمل بھی قانونی تقاضوں سے ہم آہنگ ہونا چاہئیے۔