آج 14 فروری ہے۔ محبت کرنے والوں کا عالمی دن یعنی ’ویلنٹائن ڈے‘ ہے۔ ویلنٹائن ڈے کو محبت کرنے والے ہی منائیں گے اور ارادہ محبت رکھنے والے بھی! ہم جیسے لوگ منائیں یا نہ منائیں، کوئی فرق نہیں پڑتا۔ البتہ اگر پاکستان میں محبت کے پیاسے ویلنٹائن ڈے منائیں تو پاکستانی معیشت کو ایک بڑا سہارا مل سکتا ہے۔ تو بسم اللہ کریں اور "ویلنٹائن ڈے" منائیں۔ خان صاحب ویسے ہی معیشت کا قبلہ درست نہیں کر سکتے تو خان صاحب کو چاہیے کہ معیشت کو اوپر لے جانے کے لئے ایک واحد یہی راستہ رہ گیا ہے۔ یہ دن خان صاحب خود بھی منا لیں اور پاکستانیوں کے لئے بھی اس دن کے نسبت سے ایک ٹویٹ ضرور کر لیں۔ خان صاحب اس بات پر زور دیں کہ ویلنٹائن ڈے کو منانے والے صرف کارڈ کا تبادلہ نہ کریں بلکہ آپس میں مٹھائیوں، پھولوں اور تحائف کا تبادلہ بھی کرتے رہیں۔
خان صاحب کے ان اقدامات اٹھانے کے بعد بھی اگر پاکستانی معیشت کا قبلہ درست نہیں ہوتا پھر خان صاحب کو چاہیے کہ بلاول بھٹو کے فارمولے کا سہارا لیں کہ ’جب بارش ہوتا ہے تو پانی آتا ہے۔ جب زیادہ بارش ہوتا ہے تو زیادہ پانی آتا ہے‘۔ اس فارمولے کو خان صاحب نے ہم پر تو implement کیا ہے۔ جب ٹیکس زیادہ ہو تو زیادہ مہنگائی آتا ہے۔ لیکن خان صاحب کو اب سنجیدگی سے سوچنا چاہیے۔ اگر خان صاحب واقعی پاکستانی معیشت کو پاؤں پر کھڑا کرنا چاہتے ہیں جو اس سے پہلے کبھی بھی پاؤں پر کھڑا نہیں تھا (اگر تھا تو وہ بھی دوسروں کے پاؤں پر تھا) اور نہ اب ہے تو پھر خان صاحب کو ویلنٹائن ڈے کو صرف 14 فروری تک محدود نہیں رکھنا چاہیے بلکہ بلاول بھٹو کے فارمولے کو عملی جامہ پہنا کر ہر مہینے کی 14 تاریخ کو ویلنٹائن ڈے منانے کا اعلان کرے۔ جب سال میں ایک بار ویلنٹائن ڈے ہوگا تو اس سے ملک میں سرمایہ کاری نہیں آئے گی۔ اگر سال میں بارہ بار ویلنٹائن ڈے منایا جائے تو سرمایہ کاری تو آئے گی ہی، اس کے ساتھ ساتھ وفاقی وزیر مراد سعید ’آئی ایم ایف‘ کو دو ارب ڈالر اس کے منہ پر بھی مار دیں گے۔
بلاول بھٹو کا فارمولا بھی اگر پاکستانی معیشت کے لئے سودمند ثابت نہیں ہو سکا تو پھر خان صاحب کے ہاتھوں کی لکیروں میں ہی پاکستانی معیشت کے حوالے سے کوئی لکیر موجود نہیں ہوگی۔ سوشل میڈیا پر ایک صاحب نے ویلنٹائن ڈے کی مناسبت سے انگلش میں پوسٹ کیا اور اپنی پوسٹ میں لکھا ہے کہ ’ایک مسکراہٹ ایک رشتہ شروع کر سکتی ہے۔ ایک لفظ سے لڑائی ختم ہو سکتی ہے۔ ایک نظر کسی رشتے کو بچا سکتی ہے۔ ایک شخص آپ کی زندگی بدل سکتا ہے‘۔
الفاظ کو اگر غور سے دیکھا جائے تو شاعرانہ الفاظ لگتے ہیں۔ ان الفاظ میں امیدیں بہت زیادہ ہیں جو ہم نے خان صاحب سے بھی لگا رکھی ہیں۔ خان صاحب کی حکومت کو دیکھا جائے تو یہ الفاظ بالکل فٹ آتے ہیں۔ ایک شخص پاکستانی معیشت کو بدل سکتا تھا لیکن خان صاحب نے اس کو موقع ہی نہیں دیا۔
ایک دن کے لئے خزانہ کی وزارت پر بٹھا دیا اور دوسرے دن اس کو کہا چلو اٹھ جاؤ، تم معیشت کو چلانے کے قابل ہی نہیں ہو۔ وہ صاحب بھی تو حیران ہوئے تھے کہ یہ فیصلہ بھی خان صاحب کا ہو سکتا ہے جس نے میرے نام سے ہی الیکشن کمپین شروع کی تھی اور پاکستانی عوام کو کہا تھا کہ بس اسد عمر ہی ایک ایسے پاکستانی ڈاکٹر ہیں جس نے پاکستانی معیشت کو اوپر لے جانے کے لئے، عوام کو بیس کروڑ نوکریاں دینے کے لئے، پچاس لاکھ گھر بنانے کے لئے اور آئی ایم ایف کے منہ پر دو ارب ڈالر پھینکنے وغیرہ وغیرہ کے لئے ایک ایسا کیپسول ایجاد کیا ہے جس نے دنیا بھر کے ماہر معاشیات کو سر چکرانے پر مجبور کیا۔
یہی وجہ ہے کہ پاکستانی عوام تبدیلی سرکار کے غبارے میں ہوا بھرنے کے لئے شدید بےتاب تھی جس کو بھرنے کے بعد ابھی تک اس غبارہ کو ہواؤں کی اشد ضرورت ہے۔ اگر ہوائیں نہ ملیں تو کسی بھی وقت یہ غبارہ اپنا توازن کھو بیٹھ سکتا ہے اور ابھی کھونے کے قریب بھی ہے۔ پاکستانی معیشت کے لئے ڈاکٹر اسد عمر نے جو کیپسول تیار کیے تھے بنا تجربہ، بنا کسی لالچ، بنا کسی اور ڈاکٹر کا سہارا لیے، وہ کیپسول تبدیلی سرکار کو حکومت ملتے ہی سو دن کے اندر اندر expire ہو گئے۔ میں سمجھتا ہوں کہ یہ تبدیلی سرکار کے لئے ایک بڑا صدمہ تھا۔ اور ابھی تک تبدیلی سرکار نے اس کیپسول کے متبادل صرف ٹیکس کیپسول پر کام کیا ہے۔ میں سمجھتا ہوں کہ اگر ٹیکس کیپسول کے ساتھ ساتھ ویلنٹائن ڈے پر کام کیا جائے کیونکہ عشق کے امتحانی حال میں پاکستانی زیادہ ہوتے ہیں جو پاکستانی ہر عشق باآسانی سے کر سکتا ہے تو اس سے پاکستانی معیشت کو مثبت اشارے بھی ملیں گے اور پیٹ پالنے والوں کو دو وقت کی روٹی بھی۔